بیانیے کا تضاد
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو تضادات سے بھرپور ہے۔ ہمارے مقاصد اور پالیسیوں میں ہم آہنگی ہے نہ ان پر عمل درآمد میں کوئی مطابقت بلکہ یہ زمینی حقائق سے کوسوں دورہیں۔ گزشتہ آٹھ سال کے دوران پاکستان میں دس کے قریب لانگ مارچ یا دھرنے ہوچکے ہیں۔ ان سب کا انعقاد غیر واضح یا مبہم وجوہات کی بنا پر کیا گیا اور ہم نے دیکھا کہ یہ تمام کے تمام کسی خاطر خواہ مقصد یا نتیجے کے بغیر ہی ناکام ہوگئے۔ اگر دیکھا جائے تو ہماری سیاست کے یہ تضادات اور ابہام عام آدمی کو درپیش مسائل حل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
یہ صدی اس حوالے سے حیرت انگیز ہے کہ ذرائع ابلاغ اور رابطوں کا ایک بے پایاں سمندر ہمارے گرد ٹھاٹھیں مار رہا ہے مگر دوسری طرف ریاستوں، معاشروں، خاندانوں، آدمیوں کے باہمی تعلقات کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے۔ اسی طرح تعمیر و ترقی اپنے عروج پر ہے لیکن معاشرے آج بھی انسانی حقوق کے لیے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ 21 صدیاں استحصال میں گزارنے کے بعد بالآخر خواتین بھی مردوں کو “اب بس کافی ہوچکا” کہہ چکی ہیں۔
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آج کا میڈیا جھوٹ کا پردہ چاق کرنے کی خبر دینے کے بجائے حقائق سے توجہ ہٹانے کے لیے خبردیتا ہے۔ اسی طرح انٹرٹینمنٹ کے ریپر میں پراپیگنڈے کا چورن بیچا جا رہا ہے جبکہ سوشل میڈیا اپنے نام کے برعکس سماج دشمن بن چکا ہے۔ یہ لوگوں کو جوڑنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کررہا ہے۔ اس صورتحال میں صرف خاموشی ہی کو ایسا تریاق سمجھ لیجیے جو بحث و مباحثے کے زہرکو زائل کرنے اور لوگوں کے دلوں کو جوڑنے میں اکسیر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس صدی کا المیہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کرتے اور ان میں حصہ لیتے ہیں وہی اس احتجاج کا موجب ہوتے ہیں۔ یعنی ان ہی کی حرکتوں اور کارناموں پر لوگ سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ اسی طرح بین الاقوامی تعلقات میں تمام ریاستیں اپنے اپنے مفادات کو عزیز رکھتی ہیں حتی کہ وہ جن ریاستوں کا دفاع یا حمایت کررہی ہوتی ہیں، انہی کے وسائل کو کسی نہ کسی بہانے لوٹ رہی ہوتی ہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بہت سی ریاستیں دوسری ریاستوں کو طاقت، پراپیگنڈے یا دبائو کے ذریعے کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن خود اپنے شہریوں کو امن وامان کا ماحول فراہم نہیں کرسکتیں۔ اس وقت امریکہ اور چین اقتصادی ترقی، ٹیکنالوجی اور وسائل کے لحاظ سے دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتیں ہیں لیکن ایک لمبے عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ کسی کو یہ احساس نہیں کہ دنیا کی آبادی اس قدر تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ انسان تو انسان دوسرے جانداروں کے لیے بھی یہاں جگہ کم پڑنے لگی ہے اور بڑھتی ہوئی صنعتی و اقتصادی سرگرمیاں موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے ممالک جنہیں اللہ تعالی نے توانائی کے ذخائر سے نواز رکھا ہے انہیں یہی عالمی طاقتیں کسی نہ کسی بہانے تباہ و برباد کررہی ہیں یا انہیں پابندیوں میں جکڑ رہی ہیں۔ تیل ضروریات زندگی میں سب سے اہم ہے اور اس کی قیمت اسٹاک مارکیٹ کی طرح طے کی جاتی ہے۔
عالمی سیاست تو بے رحم تضادات سے بھری پڑی ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح افغانستان میں روس کو شکست دینے کے لیے امریکہ نے گوریلا فورس بنائی اور اسے مالی و اسلحی معاونت فراہم کی۔ جب روس اپنا شیرازہ بکھرنے کے بعد افغانستان سے نکلا تو امریکہ کی نزدیک وہی گوریلا فورس دہشت گرد قرار پائی۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی فوجیں اتار کر یہاں 21 سال بے مقصد جنگ لڑی جس پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے اور اسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ امریکہ کے اس رویے اور طرز عمل کے باوجود وہ پاکستان کو دہشت گردی پروان چڑھانے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔
فوکو یاما نے اپنی کتاب “اینڈ آف ہسٹری” میں لبرل جمہوریتوں کی بالادستی اور دھونس کا اعتراف کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ لوگ آج بھی ایسے نظام کی تلاش میں ہیں جو انہیں رہنے، کھانے پینے، صحت اور پانی کی سہولیات مہیا کرے۔ دنیا کے 800 ملین افراد اب بھی مہاجر ہیں یا پھر دربدر ہیں اور اپنی زندگیاں کھلے آسمان یا ٹوٹے پھوٹے کیمپوں میں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی اس دربدری اور ابتری میں مغربی جمہوریتوں کا سب سے بڑا کردار ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن وہاں بہت سی ریاستوں میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا استحصال کیا جارہا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وہ افغانستان میں خفیہ سازشوں کے مراکز قائم کرنے اور صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں بھِی مصروف عمل ہے۔ بھارت کی حکومت اور سیاسی جماعتیں انتخابات جیتنے کے لیے ہیجانی اور جذباتی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔ یہ نام نہاد جمہوریت اپنے مقاصد کے لیے جعلی فلیگ آپریشن کے ساتھ ساتھ فارن پالیسی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بھی جعلی نیوز ایجنسیوں کا سہارا لیتی ہے۔
پاکستان آج تک عالمی مالیاتی اداروں سے مجموعی طور پر 51 ہزار بلین روپے قرض لے چکا ہے۔ قرض دینے والے تمام اداروں کا انتظامی کنٹرول امریکہ کے ہاتھ میں ہے اس حقیقت کے باوجود ہماری ایک معروف سیاسی جماعت امریکہ مخالف نعرہ بازی کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہے۔
تمام ریاستوں، حکومتوں، صوبوں، معاشروں، خاندانوں اور افراد کو اپنی ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ فطرت اور کرہ ارض کا شکریہ کہ اس نے ایک خاص متوازن کے ساتھ تمام جانداروں کو اپنے اندر سمو رکھا ہے۔ تاہم انسان نے وسائل کا بے رحمی سے استعمال کرکے اس توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دنیا کو توانائی، خوارک اور پانی جیسے قیمتی ذخائر میں کمی کا سامنا ہے تو دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں نے اسے سنگین خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر اب دنیا کو مل بیٹھ کر ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اب بھی دیر نیں ہوئی۔ دنیا میں وسائل کی کمی نہیں، صرف اس کے استعمال اور منصفانہ تقسیم کے ایک موثر، جامع اور سائنسی نظام پرعملدرآمد کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ تضادات اور طاقت کے ایوانوں کی چھینا جھپٹی سے بھری پڑی ہے۔ 1990 میں کیا ہوا، اسی طرح 1993، 1997، 1999، 2008، 2018 اور اب 2022۔۔۔ ہم نے دیکھا کہ منتخب حکومتوں کو 58(2)B، کرپشن چارجز پر عدالت عظمی کے ذریعے یا پھر تحریک عدم اعتماد کی صورت میں پارلیمنٹ کے ذریعے گھروں کو بجھوایا جاتا رہا۔ میاں نواز شریف کو کرپشن چارجز پر سپریم کورٹ نے اقتدار سے باہر کیا لیکن انہوں نے اس فیصلے کا انکارکرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو اس کا قصوروار ٹھہرایا۔ حالانکہ یہ فیصلہ پانامہ لیکس کا نتیجہ تھا جسے وہ خود عدالت میں لے کر گئے تھے تاہم فیصلے کے بعد وہ احتجاجی جلوسوں اور جلسوں میں اداروں کو مورودالزام ٹھہراتے رہے۔ عمران خان کو بھی ورثے میں ایسا ہی نظام ملا جو کبھی ڈلیور نہیں کرسکا۔ ان کی کوششوں بیکار ثابت ہوئیں۔ ملکی معیشت کی حالت دن بدن بگڑتی گئی اور سنگین صورتحال سے دوچار ہوگئی۔ اپنی اور اپنی ٹیم کی اس نااہلی کا الزام عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ پر تھوپ دیا۔ ایسا مضحکہ خیز اور سفید جھوٹ کہ جس نے اسٹیبلشمنٹ کو تنقید زد میں لا کھڑا کیا۔ ہمارے سیاسی نظام کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں ابھی تک پارلیمنٹ اور دوسرے جمہوری اداروں کو مضبوط نہیں بنا سکے۔ لیڈرز اقتدار جمہوری اداروں کو منتقل کرنے کے بجائے صرف اور صرف اپنے ہاتھ میں رکھنے کی روش پر قائم ہیں۔ انہوں نے سیاسی نظام کو منظم کرنے کے بجائے عوامی طاقت کی لگام اپنے ہاتھوں میں رکھی جس کا خمیازہ آج وہ بھگت رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں تیزی سے بدلتے عالمی منظر نامے اور اس کے قومی سیاست پرمرتب ہونے والے اثرات کا ادراک کریں۔ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ اب یہ پرانی دنیا ہے نہ پرانے لوگ، پرانی عدالتیں ہیں نہ پرانے مالی ادارے اور نہ ہی کوئی پرانا دوست ہے نہ دشمن… اب دنیا یکسر بدل چکی ہے۔ طاقت کا محور چند ہاتھوں سے نکل کر بہت سے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ جو اقتدار میں آنا چاہے، اب اسے طاقت کے ان تمام چھوٹے بڑے مراکز سے علیحدہ علیحدہ معاملات نبٹانے پڑیں گے۔ ہر گزرتی ساعت عوامی جذبات میں اتار چڑھائو لا رہی ہے۔ بیرونی دبائو بھی شدید ترہے۔ اب لمحے بھر میں کوئی معاملہ وائرل ہوکر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ہی لوگ خفیہ معلومات کو لیک کرردیتے ہیں۔ جونہی بند کمرے میں کوئی میٹنگ ختم ہوتی ہے، اگلے ہی لمحے اس کی ساری تفصیلات منظر عام پر آ جاتی ہیں۔ یہ صورتحال اس حقیقت کا اظہار کررہی ہے کہ آج کی دنیا بدل چکی ہے بلکہ ناقابل تصور حد تک بے اعتبار ہوچکی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے پاکستان میں ٹویٹر ٹرینڈز متعارف کروایا تاہم بعد میں اپنے دور اقتدار 2018 تا 2022ء کے دوران وہ اسی کا شکار ہوئی۔ پی ٹی آئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنانے کے لیے پی ایم ایل [ن] نے ایک حکمت عملی بنائی۔ SAATH فورم اور پی ٹی ایم ٹرولز کے ذریعے کھلے عام فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ آج کل پی ٹی آئی بھی ایسی ہی پالیسی پر گامزن ہے۔ تاہم سچ یہی ہے کہ جھوٹ، فریب اور غیرحقیقی مقاصد پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نہیں نکال سکتے۔ عمران خان کے پاس اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں پاکستان اور اس کے عوام کے لیے کوئی حکمت عملی نہ تھی۔ آج بھی وہ اس سے عاری نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی پلان ہے نہ ٹیم، کوئی ویژن ہے اور نہ سیاسی مقاصد۔ ان کی جماعت آج بھی “نیا پاکستان” کے پرانے نعرے کے ذریعے انہیں وزارت عظمی کی کرسی پر دیکھنا چاہتی ہے۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ پی ٹی آئی جعلی بیانیے اور جھوٹے نعروں وعدوں سے اب عوام کو مزید گمراہ نہیں کرسکے گی۔ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے نہ ان کی توقعات محدود ۔ جھوٹ اور تضادات کی سیاست کے ذریعے ان کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک جاسکتی۔
0-0-0-0-0-0-0