ب ج ٹ؛
تحریر ڈاکٹر عتیق الرحمان
سادہ سی تشریح یہ ھے کہ اگلے سال ھماری آمدنی کیا ھو گی اور ھمارے اخراجات کیا ھونگے- ضروریات پوری کرنے کیلئے پیسے کہاں سے آئیں – میری یاداشت جہاں تک ساتھ دیتی ھے , پاکستان کی بجٹ کے ساتھ ” خسارے” کا لفظ ضرور آتا ھے- آج بھی خسارے کا بجٹ پیش ھونے جا رھا ھے-
آج جیسے ھی بجٹ کتابچے کے اندر سے سال ۲۰۲۲-۲۳ کیلئے ھندسوں کا ھیر پھیر جسے سنایا جائے گا تو میڈیا پر ایک طوفان برپا ھو جائے گا، گنے چنے فقروں کا بھرپوراستعمال شروع ھو گا- اپوزیشن عوام کو اطلاع دے گی کہ اپ لٹے گئے ھو- اور حکومت کہے گی کہ پچھلوں نے لوٹا تھا، ھم بری الزمہ ہیں- یہ تقریر خواس اپنے اے سی والے کمروں میں سنیں گے- ۴۲ ڈگری سخت گرمی میں کام کرنے والے دہھاڑی داروں کو کچھ علم نھی ھو گا کہ ان کے لئے اندر کیسی جنت تراشی جا رھی ھے-
تقریر کے چند جملوں کو لے کر سیاست دان ، متوسط طبقہ سوشل میڈیا اور ٹی وی پروگراموں میں آپس میں گتھم گھتا نظر آئے گا- کچھ سبسیڈیوں کا اعلان ھو گا اور ساتھ ھی جن کو سبسڈی دی جا رھی ھے ان پر ٹیکسوں کا اعلان ھو گا- اس بجٹ میں یا کسی بھی بجٹ میں اگر بالکل ذکر نھی ھو گا تو وہ منشاء، ڈھیڈی ، مروت ،ترینوں، مخدوموں، بھٹووں، چوھدریوں کے کاروبار کا نھی ھو گا- مینگل، رئیسانی ، خٹک، میاں ان کے کیا کاروبار ہیں ، کدھر ہیں ۔ اس کا کہیں ذکر نھی ھو گا۔ ٹوتھ پیسٹوں، نیپیوں ، گھریلو مصالحہ جات پر ٹیکس لگے گا- روزگار کی ایسی سکیمیں پیش کی جائیں گی جو قابل عمل تو دور، انسانی سوچ میں بھی نھیں ھوں گی- یہ تک بتایا جائے گا کہ اس سال چار لاکھ گدھے بڑھے ہیں- بجٹ پاس بھی ھو جائے گا اور زندگی بالکل اسی طریقے سے رواں دواں رھے گی۔ کچھ وی لاگ، پروگرام یا کالم لکھیں جائیں، کہیں فتح لکھا جائے گا اور کہیں ھار- سڑک پر بیٹھا مزدور، غریب کا چولہا، بیماریاں ، غربت، سب اسی طرح رھے گااگر کچھ بدلے گا تو بجٹ کے تین چار دن بعد سوشل میڈیا پر # کا ٹاپک، سیاسی فالیں اور نئی سیاسی حکمت عملی کہ اقتدار کیسے حاصل کرنا ھے یا طول دینا ھے- اور بس- کسی کے پاس معاشی گونجل سے نکلنے کا نہ کوئی منصوبہ تھا اور نہ ھے- صرف ھندسوں کی ھیرا پھری اور عوام کو جھل دینے کے طریقے ہیں- انتظار کریں ، بجٹ آیا چاھتا ھے