ہیش ٹیگ کی جنگ
یہ سچ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی زندہ اور متحریک معاشروں کا طرہ امتیاز اور اس معاشرے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہوتی ہے تاہم بعض اوقات خاموشی اس سے بھی بڑا اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب معاشرے میں امن و امان اور تعمیر وترقی ترجیح ہو۔ آج کل سوشل میڈیا کا شور اس قدر بڑھ گیا ہے کہ عام آدمی کے کان اسے سمجھنے سے قاصرہیں۔ ہم سب بول رہے ہیں لیکن سن کوئی نہیں رہا۔ ہم محض اپنے دل کی تسکین اور دوسروں کو تنگ کرنے کی خاطر واٹس ایپ اور دوسرے سوشل میڈیا چینلز پر الٹی سیدھی پوسٹیں فارورڈ اور شیئر کرتے چلے جارہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہم جو الفاظ لکھ اور بول رہے ہیں،ہمیں ذرا بھر بھی ان کے نتائج کا احساس نہیں ہے۔ یعنی یہ طوفان ہمیں اپنے ساتھ کہاں بہالیے جا رہا ہے ہمیں خود معلوم نہیں۔
ہم آہنگی اور اتفاق کی بہ نسبت بحث و مباحثے اور اختلاف کی زبان زیادہ پراثر ہے۔ سیاست اور میڈیا کے لحاظ سے تو یہ نقطہ انتہائی موثرہے تاہم سماجی، معاشی اورنفسیاتی اعتبار سے یہ کسی بھی معاشرے کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی ریاست سیاسی استحکام کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ہے اور نہ ترقی کرسکتی ہے۔ صرف سیاسی استحکام ہی معاشرے کی مضبوطی اور آسودگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اپنے مقاصد کے لیے جھوٹ، فریب اور من گھڑت پراپیگنڈہ کا استعمال بہت قدیم ہے تاہم جدید ٹیکنالوجی نے اس عمل کو اتنا آسان اور موثر بنا دیا ہے کہ جس کے نتائج فوری طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک وقت تھا لوگ اپنے سیاسی رہنمائوں کے اعلی کردار اور ذوق کے لیے جمع ہوتے تھے تاہم آج کل محض اس لیے جلسوں میں کھچے چلے آتے ہیں کہ ان کے لیڈر مخالفین پر آوازے کسنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف غیراخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں۔ لیڈروں کی شعلہ بیانیاں مشتعل حاضرین کے دل و دماغ میں آگ کو مزید بھڑکا رہی ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دوراقتدار2016 تا 2020 اسی طرح کے تصادم اور بدزبانی سے عبارت ہے۔
پاکستان میں ایسا طرز عمل 2017ء میں اس وقت اپنایا گیا جب سپریم کورٹ نے کرپشن الزامات پر اس وقت کے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے بعد الزامات کا ہوش ربا طوفان اٹھا اس نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنی زد میں لے لیا۔ مسلم لیگ ن کی چھوٹی بڑی ریلیوں اور جلسوں نے معاشرے کو نقصان پہنچاتے ہوئے تقسیم کردیا۔ اسی طرح کا طرز عمل آج کل پی ٹی آئی اپنائے ہوئے ہے۔ عمران حکومت کو ایک سیاسی عمل کے بعد جب ہٹایا گیا تو وہ الزام تراشیوں کی پٹاری کھول کر بیٹھ گئے۔ اب حالت یہ ہے کہ جلسے جلوسوں اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے اور ریاست کے خلاف عوامی رائے کو مسلسل متاثر کیا جا رہا ہے۔
یہ ایک نئِی قسم کی جنگ ہے جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور اس عالمی میدان میں لاکھوں افراد سوشل میڈیا کے مورچوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر لفظی وار کررہے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی سے، انٹرنیٹ اور اسی طرح کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی ترقی نے عالمی سفارت کاری، جنگ و سیاست، نیوز اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس نے ایک ایسے انقلاب کی شکل اختیار کرلی ہے کہ جسے دنیا کی کوئی قوم، رہنما، طبقہ اور فوج نظرانداز نہیں کرسکتی۔ یاد رہے کہ آج اگر یہ کسی کو فائدہ پہنچا رہی ہے تو کل یہ اس کے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔آج کل صرف سیاسی مقاصد ہی نہیں بلکہ بغاوتیں، تنازعات، انسانی حقوق، مارکیٹنگ اور برانڈنگ کے لیے بھی ڈیجٹل پلیٹ فارم استعمال کیے جارہے ہیں۔ عراق کی مثال ہی لے لیجیے جہاں آئی ایس آئی ایس کے صرف 15 سو جنگجوئوں نے سوشل میڈیا کے جارحانہ اور موثر استعمال کی بدولت میسئول پر قبضہ جما لیا۔ افغانستان اور پاکستان میں بھی دہشت گرد عناصر دہشت گردی اور شدت پسندی کو بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔
لاگر تھم اب ایک نئی زبان ہے۔ ڈیٹا مائننگ اور تجزیے، اب بزنس اور مارکیٹ کے رجحان کو طے کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل ورلڈ نے لوگوں کو ان کے تصور سے بھی بڑھ کر طاقتور بنا دیا ہے۔ گھر بیٹھ کر کام کرنا اب نیا رجحان ہے۔ فری لانسگ بڑھنے سے نوجوانوں کے روزگار میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر روز ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کے نت نئے طریقے منظر عام پر آرہے ہیں۔ آن لائن سرمایہ کاری، بینکنگ، شاپنگ، فوڈ ڈلیوری، ٹکٹنگ اور بکنگ نے زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ موبائل فون پر صرف ایک کلک سے لاکھوں کروڑوں روپوں کی ادائیگی کی جارہی ہے۔
ڈیجیٹل دنیا کا یہ پہلو انتہائی مثبت ہے لیکن افسوس پاکستان میں یہ صرف اور صرف اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے اور ہیش ٹیگ # کے ذریعے انہیں بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ہم اس تواتر سے یہ کام کررہے ہیں کہ اب تو لگتا ہے کہ ہم ہیش ٹیگ سوسائٹی بن چکے ہیں ایک ایسی وائرل سوسائٹی جوحقیقت سے بہت دور صرف خیالی دنیا میں آوارہ گردی کرتی رہتی ہے۔زندگی کے دوسرے امور کی بہ نسبت دھمکیاں، سازشیں اور سیاسی دھینگا مشتی ہمارے معاشرے کے لیے زیادہ کشش رکھتے ہیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور بیانات وہ چورن ہے جسے ہم سب سے زیادہ خرید رہے ہیں۔ اپنے ہی پیدا کردہ مشکلات کے حل تجویز کرنا اور سازشی نظریات پر گرما گرم بحث کرنا ہماری قوم کا محبوب مشغلہ بن چکا ہے۔ لوگ بے مقصد اور فضول گفتگو میں الجھے رہنے میں خوش رہتے ہیں۔ پاکستان میں ٹویٹر اور ٹیلی ویژن اس قسم کے فضول بحث و مباحث کا سب سے بڑا ذریعہ بن کر آلودگی کا ڈھیر معلوم ہوتے ہیں۔ ہیش ٹیگز # کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جسے باقاعدہ ہیش ٹیگ ٹیمیں چلا رہی ہیں۔ ہر لمحے ایک نیا ہیش ٹیگ ابھرتا ہے اور کسی سیاسی مخالف کی پگڑی اچھال کر غائب ہوجاتا ہے۔ اس طرح آج کل یہ سیاسی بالادستی اور مخالفین کو زیر کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بحث و مباحثے کے رویے ہمیں انگزایٹی کے سمندر میں اتارسکتے ہیں جس سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے اپنا ایک چھوٹا سا تجربہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ میں اور میرے چار دوستوں نے موبائل فون کے استعمال کو محدود کرنے اورچند ایپس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔ موبائل فون استعمال کرنے کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ہم میں سے ہر ایک نے روزانہ اوسطا آٹھ سے دس گھنٹے موبائل استعمال کیا۔ ہم نے مزید دو گھنٹے کم کرکے اسے چھ گھنٹے روزانہ تک لے آئے۔ ہم نے نصف بھر واٹس ایپ گروپس کو بھی خیرباد کہا اور ٹویٹر کا استعمال بھی پچاس فیصد کم کردیا جبکہ فیس بک کو تو تقریبا ترک کردیا۔ سیل کے محدود استعمال اور ایپس سے یہ دوری سے حیرت انگیز نتائج بڑآمد ہوئے۔
یہاں میں تمام نتائج کی تفصیل تو نہ بتا سکوں گا تاہم آپ کی دلچسپی کے لیے چند کا مختصرا ذکر کرتا ہوں۔ متنازعہ مواد سے دوری ہونے کے باعث ہمارے درمیان کسی بات پر خونخوار بحث و مباحثہ نہ چھڑ سکا، وہ ایپس جن پر آپ سوال جواب کرسکتے ہیں جیسے کہ واٹس ایپ، ٹویٹر، فیس بک وغیرہ ان کے زیادہ استعمال سے انگزائٹی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کا جتنا زیادہ استعمال کیا جائے یہ بیماری اسی قدر بڑھتی ہے۔ اسی طرح یوٹیوب انٹرٹینمنٹ اور اپنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے اچھی ایپ ہے۔ سیل فون کے محدود استعمال سے ہمارا زیادہ وقت فیملیز کے ساتھ گزرا اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ سیل فون سے دوری کے باوجود ہمیں کسی چیز کی کمی کا احساس نہیں ہوا تھا۔
ٹویٹر پر ہیش ٹیگ بنانا کوئی نئی بات نہیں لیکن آج کل سیاسی مقاصد کے لیے جس بے دردی سے اس کا ستعمال کیا جارہا ہے وہ پریشان کن ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ فضول اور بے مقصد ہیش ٹیگ زیادہ ڈسکس ہورہے ہیں جیسا کہ #merepasstumho چار دن تک ہماری قوم کے اعصاب پر سوار رہا۔ آخری قسط پر عجیب و غریب تبصرے سامنے آئے جو سوشل میڈیا یوزرز کی ذہنی حالت کے اظہار کے لیے کافی ہیں۔ ایک نے لکھا کہ “اندازہ لگائیے کہ دانش اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے یا پھر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ۔ تاہم ہیرو تمام ناظرین سے زیادہ سمارٹ نکلا، وہ دونوں کے چنگل سے نکل کر خودکشی کا فیصلہ کرتا ہے۔ ڈرامے کے اس المناک اختتام پر ٹویٹر صارفین اگلے دودن تک اسی ہیش ٹیگ کو ٹاپ ٹرینڈ بنائے صدمے کی کیفیت میں رہے۔ اس طرح سیاسی ٹیگز کے علاوہ فلمی شخصیات بھی ہیش ٹیگ بنانے میں بازی لے گئی ہیں۔ درحقیقت ہمارے ملک میں ہیش ٹیگ بنانا ایک مقبول گیم بن چکا ہے کیونکہ یہ فالوورز کی تعداد میں اضافے اور سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ ہیش ٹیگز اس قدر عام ہیں کہ ڈلیوری بوائے کے دیر سے آنے یا پھر کیپ کے مقررہ جگہ سے ذرا سے دور رکنے پر بھی یہ بن جاتا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے #ImportedHakoomatNamangoor ٹویٹر پر چھایا ہوا ہے۔
اس تناظر میں یہ حقیقت آ شکار ہوتی ہے کہ میڈیا ایک اپنی ہی بنائی خیالی دنیا میں مگن ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا استعمال ذمہ دارانہ ہونا چاہیے۔ رائے عامہ کو متاثر کرنے کے حوالے سے اس عمل میں کسی قسم کی مداخلت ریاست اور خود میڈیا کے اندر غیریقینی صورتحال پیدا کرتی ہے۔ میڈیا ایسی مداخلت کو آزادی اظہار رائے پر حملہ جبکہ ریاست اسے قومی مفاد کا نام دیتی ہے۔ حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اپنے اپنے موقف میں دونوں ہی درست ہیں۔ ریاست اور میڈیا کے درمیان اس قسم کی رسہ کشی زمانوں سے چلی آرہی ہے لیکن جدیدیت کی تحریک کے بعد معاشرے اور ریاست کے درمیان خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔آج کے زمانے میں بڑھتا ہوا ورچوئل کلچر صارفین کی محض ایک عادت ہے۔ یہ کوئی منفی اثرات کا حامل نہیں تاہم سیاسی پارٹیوں کے ووٹ بینک میں اضافے میں مددگار ضرور ہے۔ اس پس منظر میں سیاسی پارٹیوں کو ادراک ہونا چاہِیے کہ ہیش ٹیگ کو شخصیات اور اداروں کے ساتھ نتھی کرنا دراصل ملک میں انتشار پھیلانے اور ریاست کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال معاشرے میں مفید نتائج برآمد کرنے کے بجائے اسے بگاڑنے میں زیادہ کردار ادا کررہا ہے۔