آخر ھوا کیا ہے ؟
سیاسی، معاشی اور معاشرتی خلفشار نے تقریبا پچھلی ایک دھائی سے وطن عزیز کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے- ایک پریشان کن صرتحال نظر آرھی ہے- اگر ایک فقرے میں ان وجوہات کو بیان کرنا ہو تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ صورتحال پچھلے پچھتر سالوں کی ناکام پالیسوں کا نتیجہ ہے- اسے کمپوؤنڈ ایفیکٹ ( compound affect ) کہتے ہیں- ہمارا اندرونی خلفشار ، معیشت کے ساتھ ساتھ ہمارے خارجہ معاملات پر برے طریقے سے اثر انداز ہو رہا ہے- ہم معاشروں کی ترقی کے لئے وضع کئے گئے ضوابط سے مکمل انحراف کرتے آ رہے ہیں جس کے اثرات اب واضع طور پر ملکی سالمیت اور ترقی کی راہ میں روکاوٹ بن کر سامنے آ گئے ہیں اور سیاسی جماعتوں، قومی اداروں سمیت عوام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں- الزام تراشیوں کا وقت تو بہت پہلے گزر چکا ہے ، بلکہ اب تو مل جل کر عمل کرنے کا وقت بھی گزرتا جا رہا ہے-وجوہات کا ادراک کئے بغیر مسائل کا حل ممکن- ذیل کی سطور میں وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی گئے ہے نیز اس ضمن میں نیوٹن کے قوانین کا حوالہ استعارہ تن اور تحریر کو شگفتہ بنانے کے لئے دیا جا رھا ہے، اسے سائنس اور سوشل سائنس کے حوالے سے نہ پرکھا جائے-
نیوٹن کے پہلے قانون کے مطابق خود بخود کچھ نہیں ہوتا- اگر کوئی باڈی ماس حرکت میں ہے تو چلتا رہے گا اور اگر ساکت ہے تو پڑا رہے گا جبتکہ باھر سے کوئی فورس اثر انداز نہ ہو- طبعیات کی اس قانون سے ہم بہت سے نتائج حاصل کر سکتے ہیں- ہم اٹھاسی لاکھ مربع میل میں پھیلے بائیس کروڑ نفوس اپنی جگہ پچھتر سال سے تقریبا ساکت پڑے ہیں اور پڑے پڑے بولڈرز بن گئے ہیں- دنیا میں ترقی کا عمل تو جاری تھا ہی اب تبدیلی کاعمل شروع ہو چکا ہے- مغرب سے دولت ، مشرق منتقل ہو رہی ھے – لہذا اب مغرب کو مشرقی ، جنوب مشرقی اور جنوبی ایشا کے ساتھ تجارتی شراکت داری چاہیے اور مشرق کے ممالک کو مغربی مارکیٹیں اور توانائی چاھیے- اسے خوش قسمتی سمجھیں یا کچھ اور ، بہرحال ہم مشرق اور مغرب کے سنگم میں پڑتے ہیں – اب نیوٹن کے دوسرے قانون حرکت کو ذھن میں رکھیں جو کہتا ہے کہ باھر سے اثر انداز ہونے والی قوت جتنی بھاری ہو گی اندر حرکت اسی تناسب سے ھو گی- مشرق اور مغرب میں تجارتی اور توانائی کے ملاپ کی وجہ سے جاری کشمکش کی وجہ سے ، پاکستان پر باہر سے اثر انداز ہونے والی قوت میں تیزی آ رھی ہے لہذا اسی تناسب سے ہمارا باڈی ماس حرکت کر رہا ہے –
ہمارا باڈی ماس اندر سے بہت کھوکھلا ہے اور اس میں مزاحمت کی بالکل سکت نہیں –
سیاسی فیصلے اور غلطیاں اپنی جگہ لیکن پاکستان جس خطے میں موجود ہے یہ کولڈ وار کے دور سے عالمی طاقتوں کے دنگل کا اکھاڑہ رہا ہے – پاکستان اس کے اثرات سے بچ نہیں سکتا تھا-اسطرح کی صورتحال دنیا میں کسی اور ملک کو درپیش نہیں رہی – وراثت میں جغرافیائی حدود اورباقی اثاثوں کی بانٹ میں نا انصافی اور اندرونی خلفشار نے ۱۹۴۷ سے ہی ھمیں پریشان کر رکھا ہے-
اگر مثبت رخ سامنے رکھیں تو کہ سکتے ہیں پاکستان بہت کڑا سفر کر کے یہاں تک پہنچا ہے- لیکن اگر موازنہ کریں تو ہم اپنے ہمسائیوں کی طرح سیاسی اور معاشی استحکام حاصل نہیں کر سکے –
سیاسی استحکام ، پر امن ماحول اور متفقہ قومی بیانیہ ملکوں کی ترقی کے لئے بنیادی جز ھے- سیاست قومی بیانیے کی لیڈر سمجھی جاتی ھے – قومی بیانیہ بہتے دریا کی طرح ھوتا ھے، باقی سارے بیانیے، ندی نالوں کی طرح ،قومی بیانیے سے نکلتے ہیں- ھمارا قومی بیانیہ ایک غیر مستحکم اور منتشر سیاست کی پیداوار ھے-جیسی سسیاست ھو گی ویسا ھی بیانیہ چلے گا- دھشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ بالکل کمزور تھا جس کی قیمت پوری قوم کو ادا کرنی پڑی- وطن عزیز میں یہ روش پرانی ھے کہ سیاسی مفادات ، عوامی مسائل پر حاوی نظر آتے ہیں- دھشت گردی، کیری لوگر بل، خارجہ پالیسی ، ھمسائیہ ممالک سے تجارت ، ان سب معاملات میں ھم قومی بنانیہ نہ بنا سکے- اور یہ سلسلہ تاحال جاری ھے –
انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت انفارمیشن کی فوری فراہمی اور بے باک تبصروں نے سیاست کو ایک نئی جہت بخشی ہے- یہ پوسٹ ٹرتھ کا زمانہ ھے، جس میں حقیقت کو پس پشت ڈال کر عوام کے جزبات کو نشانہ بنایا رھا ہے اور اس کشمکش میں سچ کہیں کھو گیا ہے- آج کی سماجی اور سیاسی زندگی میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال ایک اھم variable کی حیثیت اختیار کر چکا ہے-دات سال پہلے کے اور آج کے ووٹر میں زمیں آسمان کا فرق ہے-آج کا ووٹر نہ صرف بہتر معلومات رکھتا ہے بلکہ وہ فیصلہ سازی میں بھی بہت آزاد ہے- اور یہ فرق پچھلے معاشرتی تبدیلی میں بہت واضح طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے- …Column #Economy #Pakistan #CompoundAffect #Policies