افغانستان میں اب سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزائیں دوبارہ دینے کا اعلان
طالبان حکومت کی مذہبی پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اب سزائے موت اور ہاتھ کاٹنے جیسی سخت سزائیں دوبارہ دی جائیں گی۔
طالبان حکومت میں جیل خانہ جات کے انچارج ملا نورالدین ترابی نے ایسوسی ایٹیڈ (اے پی) نیوز کو بتایا کہ ہاتھ کاٹنے جیسی سزائیں ’سکیورٹی کے لیے ضروری ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اب یہ سزائیں سرعام نہیں دی جائیں گی جیسا کہ 90 کی دہائی میں طالبان کے سابقہ دور حکومت میں ہوتا تھا۔
تاہم انھوں نے ماضی میں سرعام پھانسی کی سزاؤں پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے قوانین کیا ہونے چاہییں۔‘
15 اگست کو افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ان کا موجودہ دور اقتدار ماضی کے نسبت سخت نہیں ہو گا۔ البتہ ملک کے مختلف حصوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
طالبان کے وزیر دفاع اور افغان طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب نے تسلیم کیا ہے کہ عام معافی کے اعلان کے باوجود طالبان جنگجوؤں کی جانب سے شہریوں کے ’انتقامی قتل‘ کے واقعات پیش آئے ہیں۔
جمعرات کو عالمی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے خبردار کیا کہ ہیرات میں طالبان گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کی تلاش کر رہے ہیں اور ان کی نقل و ہرکت کی آزادی پر قدغن لگانے کے ساتھ ساتھ ان پر لباس کی پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔
اگست کے مہینے میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ ہزارہ برادری کے نو افراد کے قتل میں طالبان جنگجو ملوث ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل اگنیس کالامارڈ کا کہنا تھا کہ ان افراد کو ’بے دردی سے قتل کیے جانے کی یہ ہولناک واردات‘ طالبان کے گذشتہ دور حکومت کی یاد دلاتی ہے اور یہ ان کی موجودہ دورِ حکومت کے مستقبل کی ایک ’خوفناک جھلک‘ ہے۔
طالبان کے کابل پر قبضہ حاصل کرنے سے چند دن قبل بلخ میں ایک طالبان جج، حاجی بدرالدین نے بی بی سی کے نامہ نگار سکندر کرمانی کو بتایا تھا کہ وہ طالبان کی جانب سے اسلامی قوانین میں سخت سزاؤں کی تشریح کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’شریعت میں یہ واضح ہے کہ جو غیر شادی شدہ ہیں اور انھوں نے کسی غیر محرم کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی تو اس کی سزا سرعام 100 کوڑے لگانا ہے۔ لیکن جو شادی شدہ ہیں اور انھوں نے کسی اور کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا تو انھیں موت تک سنگسار کیا جائے۔ اسی طرح جو چوری کرتا ہے اور اس پر یہ جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دینا چاہیے۔‘
یہ سخت اور قدامت پسند خیالات چند سخت گیر افغان باشندوں کے بھی ہیں۔
تاہم اب طالبان بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس کے باعث اپنے قدامت پسند خیالات کو عوامی سطح پر متوازن رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد سے عالمی برادری کو اپنی ایک مثبت تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ملا نور الدین ترابی جو اپنی سخت سزاؤں کے باعث جانے جاتے ہیں، 90 کی دہائی میں طالبان کے سابقہ دور حکومت میں اگر کسی کو موسیقی سنتے یا داڑھی مونڈتے پکڑ لیتے تو انھیں سخت سزا دیتے تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سخت سزائیں جاری رہیں گی تاہم اب طالبان ٹی وی دیکھنے، موبائل فون کے استعمال اور فوٹوز اور ویڈیوز بنانے کی اجازت دیں گے۔
ترابی جو اپنے گذشتہ دور حکومت میں سخت سزاؤں کے فیصلے اور اقدامات کے باعث اقوام متحدہ کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں کا کہنا تھا کہ طالبان کابینہ کے وزرا یہ مشاورت کر رہے ہیں کہ آیا اب ان سزاؤں کو سرعام دینا چاہیے یا نہیں اور اس پر وہ جلد ہی کوئی ’پالیسی بنا لیں گے۔‘
نوے کی دہائی کے دوران پھانسی کی سزا سرعام کابل کی سپورٹس سٹیڈیم میں یا عیدگاہ کے بڑے میدان میں دی جاتی تھی۔ اس وقت کی طالبان حکومت میں ملا نور الدین ترابی وزیر انصاف اور طالبان کی مذہبی پولیس کے سربراہ تھے۔
انھوں نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا کہ ’سب نے ہم پر سٹیڈیم میں سرعام سزائیں دینے پر تنقید کی مگر ہم نے کبھی ان کے قوانین اور سزاؤں کے متعلق کچھ نہیں کہا۔‘
یاد رہے کہ رواں ہفتے طالبان نے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس کا کہنا تھا کہ ‘اگرچہ طالبان سے رابطہ رکھنا ضروری ہے لیکن اقوام متحدہ کا اجلاس اس کا مناسب موقع نہیں ہے۔’
امریکہ نے جو اس مطالبے کی منظوری دینے والی کمیٹی کا حصہ ہے، بھی کہا تھا کہ وہ اس بارے میں اگلے ہفتے یہ اجلاس ختم ہونے سے قبل کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔