“قیصرمسعُودجعفری”۰۰۰۰کا”بُقراتی کالم”۰۰۰۰۰۰۰۰۰!!
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
آج بُدھ،17جنوری،2024،
حیدرآباد(سندھ) سے مُنسلک”فروُغِ علم” میں سرگرداں،ایک ایسے مُجاہد ،
جناب مرزا عابد عباس،کا۰۰۰۰۰۰۰!
“یوُمِ وفات”(برسی)کا دن ہے، جنھوُں نے ساری عُمر”علم” کے چراغ روُشن کرنے میں گُزار دیئے،
چوُنکہ،مرزا عابد عباس”شہرِعلم” اور،
“درِعلم” سے وابستہ تھے،تو اُنہوُں نے،اپنے بچّوں کو “اعلیٰ علم” دینے کیلئے کوُئ کسر نہ اُٹھا رکھی تھی،سندھ
کے دوُسرے بڑے شہر حیدرآباد،میں
آپ نے”درس و تدریس”کے کام کا آغازکیا،ہزاروُں شاگردوُں کو”علم”
کےزیور سےآراستہ کیا،سال 1953
سےسال 1961تک”سٹی کالج” کے
پرنسپل رہے،مرزا عابد عباس کے 5 بیٹوُں میں سے چار کو میں جانتا ہوُں،
اور یہ چاروُں بیٹے اپنے اپنے شُعبوُں
کے”چیمپئن”ہیں،(1)میجر جنرل(R)
اطہرعباس(سابق چیف ISPR),
(2)ظفرعباس،ایڈیٹر ڈیلی “ڈان”،
(3)اظہرعباس،MD،جیئو نیوُز۰۰اور
(4)مظہرعباس،جنگ& جیئوPFUJ
پانچویں بیٹےانورعباس باہرمُقیم ہیں،
ان دنوں میرےکزن پروُفیسرسُہیل احمد جعفری،گورنمنٹ سٹی کالج حیدرآباد کے”پرنسپل” ہیں،
اور اُنہوُں نےعقیل عباس جعفری،
کی تجویز پر کالج کی لائبریری،کومرزاعابد
عباس،کے نام سےمنسوُب کرنے کی
اس تقریب کو،آپکی”برسی”کے دن مُنعقد کیا،اور بہُت شاندار تقریب کا انعقاد کیا، یہ تقریب کئی لحاظ سے بہُت”یادگار تقریب” میں بدل گئی، تقریب کےمہمانِ خصوُصی،سندھ کے نگراں وزیرِاطلاعات، اور صدر آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی
جناب احمدشاہ تھے،اور دوُسری خاص بات یہ تھی کہ، مرحوُم کے
پاکستان میں مُقیم “چاروُں” بیٹوُں
نے،بڑےبھائ،اطہرعباس کی قیادت میں شرکت کی،پرنسپل سُہیل احمد جعفری نے اپنے اسٹاف کی مدد
سےتمام انتظامات بہُت شاندار طریقے سے کیئے ہوُۓ تھے،میڈیا
کی ذمہ داری میرے 1972کے دوُست،اور،روُزنامہ”مُساوات”کے
حیدرآباد میں نمایئدہ جناب علی حسن
نے بہُت عُمدگی سےکیئے ہوُۓتھے،
تقریب کی نظامت،کالج کے اُستاد،
پروُفیسرمسعوُد رحمان نے کی،ابتدا میں
کالج کے پرنسپل،سُہیل احمد جعفری
نے”تلاوتِ کلامِ پاک”اور”نعتِ رسوُلِ پاک(ص)پیش کرنے کے بعد
خطاب کرتے ہوُۓ،تقریب کے انعقاد کے بارے میں روُشنی ڈالی،
اور”فہم انسٹیٹوٹ”کے قیام کے بارے میں بتایا،سندھ کے نگراں وزیرِاعلیٰ،جناب مقبوُل باقر رضوی اپنی مصروُفیات کے سبب شرکت نہ کرسکے،مگر اُنہوں نے”وڈیوُ پیغام” کے ذریعے اپنی شرکت نہ کرنے پر
معزرت چاہتے ہوُۓ بہُت شاندار
الفاظ میں”مرزاعابدعباس”کو ٹربیوُٹ
پیش کیا،کراچی سے تشریف لانے والے مُمتاز و سینیئرمُحقّق،ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے خطاب کرتے ہوُۓ،مرزاعابد عباس کی شخصیت
کے دیگر پہُلؤں پر روُشنی ڈالتے ہوُۓ،اُنکی ایک غزل اورایک گیت
بھی سُنایا،مرحوُم کےایک شاگرد،
محموُد صدیقی نے سال 1956کے دوران ہوُنے والے دلچسپ اور ایسے واقعات سُناۓ کہ،سب ہی سُننے والے آبدیدہ ہوُگیئے،تقریب سے
مرحوُم کےسب سے بڑے بیٹے،اطہر عباس،اور چھوُٹے بیٹے مظہرعباس نےخطاب کرتے ہوُۓ پُرانی یادوُں
کو شیئر کیا،آخر میں”مہمانِ خصوُصی”
صوُبائ وزیرِاطلاعات،احمد شاہ نے،
پُرمغزتقریرکرکےایک سماں باندھ دیا،
اُنہوں نے کہا کہ وہ کالج کے سامنے والی روُڈ کو”مرزا عابدعباس”کے نام سے منسوُب کرنے کی بھی کوشش کریں گے،آخر میں کراچی سےآنے والے خصوُصی مہمانوں کو “اجرک اور گُلدستہ” پیش کیا گیا،اس موُقع پر
کالج کی”ڈائمنڈ جوُبلی”کے سلسلے میں
مُجلّہ”دی سٹی میگزین”کی روُنمائ بھی کی گئی،آخرمیں ،وزیرِ اطلاعات نے”مرزاعابدعباس یادگاری کُتب خانہ”کی نقاب کُشائ کرکےافتتاح کیا
“سٹی کالج”کی مین بلڈنگ کے سامنے
کھڑے ہوُکر”چاروُں بھایئوُں نے ایک یادگاری گروُپ فوُٹو بھی بنوایا،
اس طرح”گوُرنمنٹ سٹی کالج”میں
ہوُنے والی یہ تقریب اپنے اختتام کو پُہنچی،
اب “بُقراطی کالم”آپ سے اجازت
چاہتا ہے، طالبِ دعُا،
قیصرمسعُود جعفری، کراچی