‏کلب آف روم

‏پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں الیکشن جیتیں پھر بھی ڈھول ، ورلڈ کپ جیتیں تو ڈھول، عدالت کا فیصلہ آئے تو ڈھول ، رمضان میں سحری کےوقت ڈھول، فلم کی تشہری مہم کے لئے ڈھول ، قرضہ ملے تو بھی ڈھول بجاتے ہیں – ہم تھوڑی دیر کے لئے ڈھول نیچے نہیں رکھ سکتے کیا ؟ -ہمارے مسائل کئی دھائیوں کی کوتاہی کا نتیجہ ہیں – انسان کا ذہن ، مسئلے کا سطحی ادراک تو کر لیتا لیکن مسئلے کے بہت سے عمیق پہلوؤں کا احاطہ نہیں کر پاتا جیسا کہ مسئلہ کیسے شروع ہوا، اب کس سطح پر ہے، اگر حل کیاجائے تو کیا نتائج آئیں گے اور نہ کر پائے تو کیا نقصانات ہونگے – مسائل جب زیادہ ہوں تو ان کا آپس میں گہرا ربط بن جاتا ہے – یعنی آپس میں الجھ جاتے ہیں -مسائل کے حل کے لئے ان کے باہمی تعلق کو نسمجھنا ضروری ہے- ہم مسئلے کا حل محدود دائرے میں اور وقتی طور ڈھونڈ رہے ہوتے – ہم مسئلہ میں ایک ہی آئٹم کو جانچتے رہتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ پورا حصہ اس کے کئی حصوں کا مجموعہ ہے اور ایک عنصر میں تبدیلی کا مطلب دوسرے میں تبدیلی ہے۔ مثلا سوسائیٹیاں بنیں گی تو زرعی زمینیں کم ھونگی-
‏آرمی چیف کی کوششوں سے سعودیہ اور یو اے ای نے بروقت مدد کر دی، ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کی قسط آگئی، گوری ریلیف مل گیا-
‏ترقی یافتہ ممالک کے پاس جیو پالیٹیکس میں محدود آپشنز ہوتے ہیں کیونکہ عالمی تناظر میں حالات اتنی تیزی سے تبدیل نہیں ہوتے کہ آپ اپنی مرضی سے ادھر ادھر کھیل سکیں- شکنجہ بہت کسا ھوا ہوتا ہے- حتی کہ بڑی طاقتیں بھی اپنی مرضی سے حالات کو تبدیل نہیں کر سکتیں – تین مہینے بعد ہم پھر ادھر ہی کھڑے ہونگے- ماضی کی کوتاہیاں بھی بڑی دلچسپ ہیں- ماضی میں مہنگی بجلی پیدا کر لی لیکن عوام کی قوت خرید نہیں بڑھائی – یونیورسٹیاں ڈگریاں دے رہی ہیں لیکن نوکریاں نہیں ہیں-
‏کبھی منصوبے کے تحت عوامی مسائل کے حل کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی- مسائل کا یہ انبھار انہیں کوتاہیوں کا کمپوڈ ایفیکٹ ہے- جو وسائل چند سال پہلے تک پندرہ کروڑ استعمال کر رھے تھے وہ اب تئیس کروڑ پر خرچ ہو رھے ہیں – نتیجہ نہ پانی پورا ہے، نہ خوراک، نہ روزگار، نہ بجلی، نہ صحت، نہ تعلیم نہ دوسری ضروریات زندگی-
‏۱۹۷۰ میں دانشور اور سائنسدانوں کے ایک گروپ نے جسے “کلب آف روم” کا نام دیا گیا تھا انہوں دنیا کو درپیش مسائل کا احاطہ کرنے اور ان کو حل کرنے لئے ٹائم اور سپیس کا ماڈل دریافت کیا تھا- اگر کوئی مسئلہ زیادہ علاقے میں پھیلتا جائے اور لمبے عرصے تک اس کو حل نہ کیا جائے تو پھر بہت کم لوگ اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں گے- پاکستان اس ماڈل کی بہترین مثال ہے-
‏انہوں نے تین نتائج اخز کئے تھے- اگر دنیا کی آبادی، صنعت ، خوراک کی پیداوار، بے روزگاری ، موسمیاتی تبدیلیاں اسی رفتار سے جاری رھیں اور وسائل اسی رفتار سے کم ھوتے گئے تو کرہ ارض پر زندگی سو سال بعد ناممکن ہو جائے گی- دوسرا نتیجہ تھا کہ ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے- اور تیسرا نتیجہ یہ تھا کہ اگر ان مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو تباھی کو روکنا نا ممکن ہو جائے گا-
‏یہ ترپن سال پہلے کا conclusion ہیں – دنیا نے ان نے ان نتائج پر عمل کیا اور آج مستحکم پوزیشن میں ہیں -دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہو چکی ہے، موسمیاتی تبدیلیاں، صاف پانی کی کمی ،خوراک کی کمی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے- انفارمیشن disorder عروج پر ھے- کم از کم ہمارے ہاں تو ان مسائل کو حل کرنے کی طرف ماضی میں کوئی توجہ نہیں دی گئی- اور اب ایک دوسرے سے پوچھ رھے ہیں کہ “اسی بچ تے جاواں گے”-
‏یہ ایک بہت ہی گھمبیر صورتحال ہے جو ہم سب کی ذاتی توجہ کی طلبگار ہے- سب سے پہلے یہ مانیں کہ ہم مسائل میں گرے ہوئے ہیں- پھر یکجہا ہو کر بیٹھ جائیں اور مسئلوں کو سمجھنا شروع کریں- مسئلہ سمجھ آ جائے تو حل ہو ہی جاتا ہے- کچھ مسئلے اکٹھے حل کرنے پڑیں گے اور کچھ علیحدہ علیحدہ- لیکن ان سب سے پہلے ہمارا ٹھیک ہو نا بہت ضروری ہے-
‏-۰-۰-۰-۰
‏⁦‪#economy‬⁩ ⁦‪#Pakistan‬⁩ ⁦‪#AsimMunir

Visited 3 times, 1 visit(s) today

You might be interested in