انرجی بحران کی کتھا-

یہ انفارمیشن اوپن سورسز سے لی گئی ھے- کوئی Scoop نہیں صرف معاملات کو سمجھنے کی ایک سعی ہے –
پاکستان میں انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) نے جتنے بھی پاور پلانٹ لگائے وہ 1999 اور 2002 کی پاور پالیسی کے تحت چل رہے ہیں۔ بنیادی طور پر بجلی کے جو معاہدے ماضی میں کیے گئے وہ بجلی کی ضرورت سے زائد پیداوار کے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مہنگے داموں بھی کیے گئے۔سب سے اہم بات یہ ہے جن آئی پی پی کے ساتھ معاھدے ھوئے وہ سب موامی کمپنیاں مقامی ہیں –
پاکستان میں بجلی کی پیداوار پر تو سرمایہ کاری کی گئی لیکن اس کی تقسیم و ترسیل کے نظام پر سرمایہ کاری نہیں ہوئی، اور اس وجہ سے بجلی پیداوار کے مرحلے سے لے کر ترسیل و تقسیم میں ضائع ہو جاتی ہے۔
توانائی کے شعبے سے وابستہ ماھرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لائن لاسز بھی صارف کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں جو ملک میں اوسطاً 18 فیصد ہیں۔
آئی پی پی کی پیمنٹ ڈالر میں ہوتی ہے- اگر قیمت خرید میں ایک cent فی یونٹ کا بھی اضافہ ھو جائے تو ٹوٹل میں ایک ارب روپیہ اضافہ ہو جائے گا- آئی پی پی کے ساتھ معاھدے پاکستان کی تباھی کے اصل ذمہ دار ہے-
ملک میں اس وقت بجلی کی پیداواری صلاحیت 35 ہزار میگاواٹ ہے اور مستقبل میں بجلی کی پیداوار میں مزید اضافہ بھی ہو گا- اس وقت ملک میں بجلی کی خریدار صرف حکومت ہے اور ماضی میں بجلی کے پلانٹس لگانے کے معاہدوں میں یہ لازمی تھا کہ ملک میں بجلی کی کھپت ہو نہ ہو، بجلی کا ہر پیدا ہونے والا یونٹ حکومت کو خریدنا پڑے گا اور اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں حکومت کو اربوں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں-
معاشی بحران کے باعث 2007 سے 2013 تک حکومت نے یہ ادائیگیاں روک دیں جس کے باعث حکومت کے ذمہ ایک بڑی واجب الادا رقم جمع ہوگئی۔
توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کا حجم 2646ارب روپے تک پہنچ چکاہے –
پاکستان کا توانائی سیکٹر گذشتہ بیس برسوں برسوں سے گردشی قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور یہی ملکی ترقی کی راہ میں اصل مسئلہ ہے-
خواجہ آصف کے مطابق پورے ملک میں 650 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ھے- اور حکومت اس چوری اور دوسری سبسڈی کی مد میں کل ملا کر 900 ارب روپے پاور سیکٹر کو اپنے پاس سے ادا کرتی ہے-
حکومت اینگرو ساہیوال سے بجلی کا ایک یونٹ ۴ روپے اسی پیسے کا خرید رہی ھے، نشاط پاور پلانٹ سے ایک یونٹ ۲۵ روپے کا، حب کو پاور پلانٹ سے ۴۰ روپے کا خریدا جا رھا ہے-
ماضی میں یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ آئی پی پی کو بجلی کی قمیت کی ادائیگی ڈالر کی بجائے روپے میں کی جائے اس طرح حکومت کو سالانہ سات سو ارب روپے کی بچت ھو گی لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو سکا-
2008 میں ان قرضوں کا حجم ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھا، جو 2013 میں بڑھ کر ساڑھے تیرہ ہزار ارب روپے تک جا پہنچا تھا۔جون 2018 میں توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 1148 ارب روپے تھا جو کہ نومبر 2020 میں بڑھ کر 2306 ارب تک جا پہنچا۔ یہ قرضہ اس وقت 2646 ارب روپے تک پہنچ چکا ھے- فنانشل سال ۲۳ میں ، پاور جنریشن کی مد میں اضافہ ، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نا اھلی، وصو لیوں کی مد میں متوقع ھدف سے کم وصولی، کے- الیکٹرک کے ذمے قرضے کی ادائیگی کل ملا کر سرکلر 440 ارب کا اضافہ ھوا-
گیس کے شعبے کا بھی گردشی قرضہ گزشتہ تین سال میں 350 ارب روپے سے 650 ارب روپے ہو گیا۔

Visited 3 times, 1 visit(s) today

You might be interested in