ایک طاقتور ملک نے ناراض ہوکر ہمیں کہا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟ اور غصہ ہوگئے، وزیراعظم
ان کا اپنا اتحادی بھارت بھی روس-یوکرین جنگ میں نیوٹرل رہا اور روس سے تیل بھی خرید رہا ہے،ساڑھے 3 سالوں میں عالمی سطح پر پاکستان کو جو عزت ملی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی،ملک کو سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے، مساوی قانون کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، ہمارے ملک میں عدم تحفظ کا سب سے بڑا مسئلہ غیر مساوی ترقی ہے، ہمارے امیر غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے رہے اور ایلیٹ کلاس نے ملک کے وسائل پر قبضہ کرلیا ، لوگوں کو مدینے کی ریاست کے نظریے کی سمجھ نہیں آرہی، مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ووٹ لینے کے لیے اور سیاست کے لیے ریاست مدینہ کا نام لیتا ہوں،میں اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کا بار بار حوالہ دیتا ہوں کہ ہر سال 1.6 ٹریلین ڈالرز غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں جاتا ہے، اس کی وجہ بھی ان ممالک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے، وزیراعظم عمران خان کا اسلام آباد میں 2 روزہ نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک طاقتور ملک نے ناراض ہوکر ہمیں کہا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟ اور غصہ ہوگئے، ان کا اپنا اتحادی بھارت بھی روس-یوکرین جنگ میں نیوٹرل رہا اور روس سے تیل بھی خرید رہا ہے،ساڑھے 3 سالوں میں عالمی سطح پر پاکستان کو جو عزت ملی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی،ملک کو سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے،مساوی قانون کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، ہمارے ملک میں عدم تحفظ کا سب سے بڑا مسئلہ غیر مساوی ترقی ہے، ہمارے امیر غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے رہے اور ایلیٹ کلاس نے ملک کے وسائل پر قبضہ کرلیا ، لوگوں کو مدینے کی ریاست کے نظریے کی سمجھ نہیں آرہی، مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ووٹ لینے کے لیے اور سیاست کے لیے ریاست مدینہ کا نام لیتا ہوں،میں اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کا بار بار حوالہ دیتا ہوں کہ ہر سال 1.6 ٹریلین ڈالرز غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں جاتا ہے، اس کی وجہ بھی ان ممالک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے ۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں 2 روزہ نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آج برطانیہ کی فارن سکیریٹری کا بیان پڑھا کہ ہم بھارت کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ آزاد ملک ہے اور اس کی آزاد خارجہ پالیسی ہے، تو پھر ہم کیا ہیں؟ انہوں نے کہا اس سب کی ذمہ داری میں کسی اور پر نہیں ڈالتا، جن لوگوں نے اچکنیں سلوا لی ہیں وہ کل بیان دے رہے تھے کہ امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہیے، امریکا کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہوسکتا، ان لوگوں کی وجہ سے آج ہم یہاں پہنچے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے ملک کو قوم نہیں اشرافیہ کے مفاد کی خاطرقربان کیا، انہوں نے ملک کی عزت کو داو پر لگایا، کبھی اس ملک کی عزت نہیں ہوتی جو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوتا، کسی خوددار قوم کو کون ایسے دھمکیاں دے سکتا ہے؟۔ وزیراعظم نے کہا کہ جس ملک کی آزاد خارجہ پالیسی نہ ہو وہ کبھی اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتا اور نہ دنیا میں اس ملک کی عزت ہوتی ہے، ہم نے اپنے ساڑھے 3 سالہ دور حکومت میں پوری کوشش کی کہ ملک کی آزاد خارجہ پالیسی ہو، کسی بلاک کا حصہ بننے سے بھی ہم دور رہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے اپنے اخباروں میں یہ خبر آجائے تو ان کی انتظامیہ کو اپنے اخباروں سے خوف آئے کہ ایسے کوئی کسی ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم نے ان کو یہ تاثر دیا کہ ہم آپ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا ہمارے روس جانے پر ہمارے پرانے دوستوں نے بڑا غصہ کیا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟میں آپ کو بتاوں کہ ہمارے نیوٹرل ہونے کی وجہ سے یورپی یونین کونسل کے صدر نے مجھےفون کرکے کہا کہ ہم اور چین مل کر روس-یوکرین تنازع کے حل کی کوشش کریں۔ انہوں نے بتایا کہ یوکرین کی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے مجھے کال کی، انہوں نے بھی مجھے کہا کہ ہم چین کے ساتھ مل کر روس-یوکرین تنازع کے حل کی کوشش کریں، شاہ محود قریشی کل چین میں تھے انہوں نے وہاں چینی اور روسی وزیر خارجہ سے علیحدہ علیحدہ مذاکرات کیے کہ ہم کسی طرح اس امن عمل کا حصہ بنیں، لیکن یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب آپ نیوٹرل ہوں اور کسی بلاک کا حصہ نہ بنیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی ہو تو چیلنجز ضرور آتے ہیں لیکن عزت بھی تب ہوتی ہے، میں بھارت کو داد دوں گا کہ انہوں نے اپنے عوام کے مفاد میں ہمیشہ آزاد خارجہ پالیسی نے رکھی ہے اور وہ اپنی خارجہ پالیسی کا بہت تحفظ بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے کئی رخ ہوتے ہیں، سب سے اہم چیز یہ ہوتی ہے کہ حکومت اور عوام ایک ہوں کیونکہ جب یہ مل جاتے ہیں تو کوئی چیز ناممکن نہیں رہتی، ایسا تب ہوتا ہے جب حکومت عوام کے مفاد کا خیال رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مدینے کی ریاست کے نظریے کی سمجھ نہیں آرہی، مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ووٹ لینے کے لیے اور سیاست کے لیے ریاست مدینہ کا نام لیتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملک میں عدم تحفظ کا احساس سب سے زیادہ تب ہوتا ہے جب ملک میں امیر غریب کا فرق موجود ہو، مساوی قانون کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، یہی ریاست مدینہ کا تصور تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں عدم تحفظ کا سب سے بڑا مسئلہ غیر مساوی ترقی کے سبب ہے، ہمارے امیر غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے رہے اور ایلیٹ کلاس نے ملک کے وسائل پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ پر نظرڈالیں تو باہر سے حملہ آور آتے تھے اور قبضہ کرلیتے تھے، لوگ کوئی مزاحمت اس لیے نہیں کرپاتے تھے کیونکہ ان کو کوئی حق ہی حاصل نہیں تھا اور محض اوپر بیٹھنے والے ہی فیصلے کرتے رہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کا بار بار حوالہ دیتا ہوں کہ ہر سال 1.6 ٹریلین ڈالرز غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں جاتا ہے، اس کی وجہ بھی ان ممالک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے۔ انہوں نے کہا خودداری اور آزاد خارجہ پالیسی ملک کے لیے بہت ضروری ہے، پاکستان کے آگے نہ بڑھنے کی ایک وجہ دیگر ممالک پر انحصار کرنا بھی ہے، ملک کا انحصار بیرونی امداد پر ہو تو قوم بن ہی نہیں سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی یہ جائزہ نہیں لیا کہ افغان جہاد میں حصہ لے کر ہم نے کیا کھویا کیا پایا، کیا ہم نے افغان جہاد میں افغان عوام کی مدد کے لیے شرکت کی یا ڈالرز کے لیے کی تھی؟ کرپشن، کلاشنکلوف، ڈرگز جیسے مسائل اس فیصلے کے ہی کے اثرات تھے، نائن الیون کے بعد ہم نے پھر یہ غلطی دہرائی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت، بنگلہ دیش، ویت نام، کمبوڈیا جیسے ممالک ہم سے آگے نکل گئے، ہم اسی لیے پیچھے رہ گئے کیونکہ ہم نے لوگوں کی بہتری کی بجائے بیرونی امداد کے لیے فیصلے کیے، کسی اور ملک کے مفادات کے لیے ہم نے اپنے ملک کو قربان کیا۔ انہوں نے کہا مجھے خوشی ہے کہ ہم نے وہ کام کیا جو ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ہوئے، ہم نے ہیلتھ کارڈ سمیت سوشل پروٹیکشن کے دیگر پروگرامز متعارف کروائے، ان شا اللہ جس پاکستان کی ماید کرتا ہوں اس میں قانون کی حکمرانی ہوگی اور ڈالرز کی بجائے عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جائیں گے ۔