‏تبدیلی مگر کیسے؟

عالمی نظام کی سب سے بے توقیر چیز کمزور ریاستیں، اور غریب عوام ھے –
‏ول ڈیورنٹ ( will durrant)کی کتاب تاریخ کے اسباق( lessons of history) کے پہلے باب میں ہی مصنف نے وضاحت کی ہے کہ دنیا میں وہی بچتا ہے جو لڑنا جانتا ہو ( survival of the fittest)- دنیا میں عزت کمانے کا ایک ہی راستہ ہے، متحد ہو کر اپنے آپ کو اور ملک کو مضبوط بنایئں –
‏انسانی تاریخ میں اب تک کاسب سے اعلی نظریہ جمہوری طرز حکومت اور اب تک کی سب سے مفید ایجاد پنسلین- اور تباہی کا بہترین نسخہ انٹرنیٹ ہے –
‏عالمی نظام سے لیکر، ریاستوں، شہروں، گروپوں ، نیز ھر جگہ
‏might is right کا قانون آج بھی اتنا ہی قابل عمل ہے جتنا یہ انقلاب فرانس سے پہلے تھا- آپ پچھلے پچیس سال میں عالمی سیاست پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ بڑی طاقتیں،ذخائر جیسا کہ تیل ، معدنیات، بشمول تانبا، یورینیم، سمندری حیات، ھیرے ، سونا، نمک، پر قبضے کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کر رہی ہیں- عالمی سیاست میں بلاک بن اور ٹوٹ رھے ہیں –
‏ عام شہریوں کے حقوق کے لئے دنیا آج اسی جگہ آ کر کھڑی ہو گئی ہے جہاں اٹھارویں صدی میں پہلے انڈسٹریل انقلاب کے وقت کھڑی تھی- ۱۷۶۵ میں کوئلےاور انجن کی ایجاد سے صنعتی انقلاب کی داغ بیل پڑی – صنعتی ترقی نے انقلاب فرانس کی بنیاد رکھی اور ریاست کا عوام سے رشتہ یکسر تبدیل ھو گیا- موروثی حکمرانی اور جاگیر دار طبقے کا تسلط ختم ھوا – صنعت کاروں نے جاگیرداروں کی جگہ سنبھالی، کھیتوں باڑی کرنے والے شہروں میں جا بسے اور فیکٹریوں میں کام کرنے لگے- غلام وہی رہے ، غلامی کا طریقہ اور مالک تبدیل ہو گئے- دیہاتوں سے شہروں کو کی گئی ہجرت نے زندگیوں کو اجیرن کر دیا –
‏بیسویں صدی میں جنگ عظم دوئم کے بعد دوسری بار شہریوں کا ریاست سے رشتہ ایک بار پھر تبدیل ہوا جب دنیا میں سلطنتوں اور کالونیوں کا خاتمہ ہوا – بہت سی نئی ریاستیں وجود میں آئیں – دنیا میں ایک نیا ورلڈ آرڈر معرض وجود میں آیا- پاکستان اسی دور میں آزاد ہوا جب شہری کا ریاست سے نیا نیا رشتہ استوار ہو رھا تھا- اس رشتے کو استوار کرنے کے کوئی مروجہ طریقے رائج نہیں تھے – ہم اسی رشتے کو ابھی ٹٹول ہی رھے تھے کہ انٹر نیٹ کی تیز ترین ترقی نے تیسری بار شہری کا ریاست سے رشتہ تبدیل کر دیا ہے- اب کے عوام کا ریاست سے رشتہ یک سر مختلف ہے – تاریخ میں پہلی بار عام آدمی کو طاقت ملی ہے -اب عام آدمی کے ہاتھ میں انٹر نیٹ اور موبائل ہے – عام آدمی ریاست سے علیحدہ ہو کر عالمی نظام سے بھی منسلق ہے اور اپنا حصہ انٹر نیٹ سے کما رہا ھے اور برملا رائے کا اظہار بھی کر رھا ہے- تاریخ میں پہلی بار عام شہری اپنی ریاست اور عالمی سطح پر براہ راست رابطے میں ہے- شہریوں کی عالمی نظام سے وابستگی ریاست کی رٹ کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے-
‏یہی وجہ ہے کہ ریاستی ادارے اور میڈیا ان پیچیدگیوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں اور یہ تبدیلی ابھی جاری ہے، بلکہ گیم تو ابھی شروع ہوئی ھے-ایک اور پیچیدگی یہ ہے کہ دنیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نرغے میں ہے لیکن جمہوریت بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے- ملٹی نیشنل کمپنیاں ریاستی امور میں بالواسطہ بہت بڑی stake holders ہیں لیکن کمپنیوں کے پیش نظر صرف ان کا نفع ہے، نہ کہ ریاست کا مفاد-
‏حکمرانوں کے لے گھمبیر مسائل کا حل روائیتی اور پرانے طریقوں میں نہیں ملے گا –
‏حکمرانوں کو عالمی نظام سے منسلق اپنے شہریوں کے تعلق ، معاشرتی نظام کی پیچیدگیوں، اربن ڈویلپمنٹ، انٹر نیٹ کے استعمال ، ریاست اور عوام کے نئے رشتے اور ریاستوں کے آپس میں تیزی سے تبدیل ہوتے تعلق کو سمجھنا ہو گا-
‏حکومتی امور اب میکاولی اور چانکیہ کی سکھلائی گئی چالاکیوں سے بہت آگے جا چکے ہیں- حکومت حاصل کرنا شاید سیاسی طاقتوں کے لئے آسان ہو ، لیکن اسے چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے-
‏جی ڈی پی اور معیشت کا مسئلہ isolation میں حل نہیں ہو گا- Governance اب monolith معاملہ نہیں – یہ اب ایک سائنس ہے جس کو سمجنھا اور سیکھنا ہو گا-سوشل سسٹم کی پیچیدگیوں، عالمی نظام کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کو سمجھ کے آگے بڑھنا ھو گا- ایک مسئلے کا دوسرے مسئلے سے گہرا ربط ھے- جب تک ان پیچیدگیوں کو نہیں سمجھیں گے ، حل تلاش کرنا مشکل ہو گا
‏۰-۰-۰-۰-
‏ڈاکٹر عتیق الرحمان

‏⁦‪#Pakistan‬⁩ ⁦‪#Governance‬⁩ ⁦‪#globalwarming

Visited 2 times, 1 visit(s) today

You might be interested in