سیاق و سباق
تحریر کو سمجھانے اور سمجھنے کے لئے سیاق و سباق ضروری ہے ورنہ سماجی جانور اور جانور کا فرق سمجھنا مشکل ہو جائے گا- صرف الو کا مطلب اور ہے، لیکن پٹھہ لگاتے ہی پوری کہانی تبدیل ہو جاتی ہے- آپ کبھی نہیں سنیں گے ” کھوتی دا پتر”، کیونکہ یہ اعزاز صرف کھوتے کو حاصل ہے کہ پتر کی نسبت اس کے ساتھ جوڑی جائے- “اول فول”کو دیکھ لیں یہ صرف بکنا کے ساتھ سجتا ہیں – ورنہ صرف “بکنا” کی اکیلے کوئی اوقات نہیں-
“آج کھانے میں کیا پکا یا ہے”؟ کا جواب اگر بیوی یہ دے کہ “گوبھی کا پھول” تو آپ حیران ہو کر اسے دیکھنا شروع کر دیں گے- – “میرے پاس تو زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں” غالبا آپ اپنی بیوی کے سامنے تنگی داماں کا رونا بھی رو رھے ہیں اور اکتاھٹ کااظہار بھی کر ہے ہیں- سادہ الفاظ میں آپ پنگا لے رھے ہیں – ” پھوٹی قسمت” ، یہ ایک مخصوص واقع کی طرف اشارہ ہے یعنی شادی والے دن کی طرف، جسے موقع کی مناسبت سے بیویاں اکثر استعمال کرتی ہیں کہ اس دن میری قسمت پھوٹی تھی-“بھوسا بھرا ہونا” بولتے ہی پورے سیاق و سباق کی سمجھ آ جاتی ہے کہ کسی نالائق کی کارکردگی زیر بحث ہے- “پڑھ لو نہیں تو فیل ھو جاؤ گے”، حالانکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ” پڑھ لو نمبر زیادہ آ جائیں گے”، لیکن آپ کو ڈرانا مقصود ہے اور یہ بھی کہ ابھی آپ جو کر رہے ہیں وہ فورا ختم کریں اور یہاں سے دفع ہو جائیں- اگر صرف “الطاف”کہیں گے تو یہ صرف نام ہے ، “الطاف بھائی” کہنے سے پوری تیس سالہ کہانی واضح ہو جاتی ہے-
اگر آپ پنجابی زبان کے سیاق و سباق سمجھنے چل پڑے تو ” چودہ طبق روشن ہو جائیں ” گے- جیسا کہ ” توں ماما لگنا اے” یہ کسی ایسے شخص کو تنبیہ کی جارھی ہے جو خوامخواہ دخل انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہو- ” اماں ایک پراٹھہ ھور”، اس فقرے میں “ھور” سیاق و سباق کا مکمل احاطہ کرتا ہے-یہ کوئی گوجرانولیہ ہے جو تین پراٹھے صبح صبح پائے کے ساتھ لپیٹ چکا ہے اور اب اماں کو اشارہ کیا ہے کہ میں ناشتہ ختم کرنے کے قریب ھوں-
۰-۰-۰-
عتیق الرحمان