عمران خان سے سوال
عفت رضا۔ اسلام آباد
عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ 26سالہ سیاست میں انہوں نے کبھی انتشار، فساد اور جلائوگھیرائو کی سیاست نہیں کی۔جبکہ مخالفین کا الزام ہے کہ سیاست میں شدت پسندی کو فروغ ہمیشہ پی ٹی آئی ہی نے دیا ہے، تحریک انصاف نے سیاست میں انتہا پسندی کا کلچر ڈالا اور پی ٹی آئی کے کارکن ہمیشہ سے جذباتی نوجوان رہے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے کسی بھی عمارت کو آگ لگادیتے ہیں۔گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور املاک کا نقصان ہمیشہ سے پی ٹی آئی کارکنان کا وطیرہ رہا ہے۔کون نہیں جانتا 2014دھرنے میں پی ٹی آئی کارکنان نے کیا کیا نہیں کیا۔ پارلیمنٹ پر چڑھائی ہو یا پاکستان ٹیلی ویژن پر حملہ ، سپریم کورٹ پر یلغار ہو یا ڈی چوک پر اکھاڑ پچھاڑ۔۔ پی ٹی آئی کارکنان نے ہمیشہ ہی احتجاج اور جلسوں کے دوران جلائو گھیرائو کی سیاست کی ہے۔ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر پولیس افسران کو دھمکیاں دیں، کوئی پولیس والا پی ٹی آئی کارکنان کے ہتھے چڑھا تو دشمن کا سپاہی سمجھ کر دُھلائی کر دی۔کل ہی کا واقعہ ہے کہ پی ٹی آئی اورگنائزر کے ہاتھوں پولیس اہلکار کو شہید کر دیا گیا۔نہ عمران خان کا مذمتی بیان آیا نہ ہی کسی پی ٹی آئی رہنما نے معذرت یا افسوس کا اظہار کیا۔ پی ٹی آئی سپورٹرز نے آج بھی اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے متعدد گاڑیاں جلادیں، عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی اور کئی مقامات پر آگ لگا دی گئی ۔اس وقت بلیو ایریا کسی تباہ شدہ علاقے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ ملک انہی نوجوانوں کا ہے ، یہ عمارتیں انہی کیلئے بنائی گئی ہیں۔ میٹرو بس سروس انہی کی سہولت کیلئے بنائی گئی ہے جسے آج یہ نوجوان اپنے ہاتھوں سے توڑ رہے ہیں۔ لانگ مارچ میں شریک مظاہرین نے درختوں اور گاڑی کو آگ لگادی۔پولیس نے آگ بجھانے کیلئے فائربریگیڈ کو طلب کرلیا اور کچھ جگہوں پر لگی آگ بجھادی گئی۔پی ٹی آئی کارکنوں نے آگ بھجانےکے لیے آنے والی فائرٹینڈر کے شیشے توڑ دیے۔ ریڈ زون کی سکیورٹی کو مزید بڑھا نا پڑ گیا۔عمران خان ایک جانب تو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ پر امن احتجاج کرتے ہیں اور دوسری جانب ان کے قوم کے عین متضاد عمل ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان شاید کبھی سچ نہیں بولتے۔ایک لیڈر کا فرض ہے کہ وہ اپنے کارکنان میں شعور پیدا کرے، انہیں اخلاقیات کا درس دے اور ان کی تربیت میں اپنا کردار ادا کرے لیکن عمران خان نے نہ خود کبھی اخلاقیات دکھائیں نہ ہی کبھی اپنے سپورٹرز کو اس کی ترغیب دلائی۔مولانا فضل الرحمٰن سے لاکھ اختلافات سہی لیکن ان کی قیادت ہی کا اثر تھا کہ لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد لائے لیکن کہیں کوئی توڑ پھوڑ ہوئی نہ ہی کسی نے کوئی جلائو گھیرائو کیا۔ جبکہ عمران خان کی سیاست کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھا جائے تو ہمیشہ سے شدت پسندی غالب نظر آئی ہے