ٹیکس، بجلی چوری اور سمگلنگ


‏IPsos عالمی ادارہ، اس کی رپورٹ کے پاکستان میں غیر قانونی تجارت سے مجموعی جی ڈی پی کا ۴۰% اور ٹیکس چوری کی مد میں ۶% نقصان ہوتا ھے- چائے، تمباکو، ٹایئر، گاڑیوں کے تیل، ادویات اور ریئل سٹیٹ میں سالانہ ۹۵۶ارب نقصان ہوتا ھے-
امیر طبقے کی ٹیکس چوری پاکستان کی معیشیت کے لئے زہر قاتل ثابت ہوا ہے-


شبر زیدی کے مطابق پاکستان میں ریٹیلر اور آڑھتی ملکی معیشت کے تقریباً 40 فیصد کے مالک ہیں اور ان پر ٹیکس نہ ہونے کے برابر ہے-یہ اسمگل اشیا بیچتے ہیں، ان اشیا کو بیچ رہے ہیں جن پر ٹیکس نہیں ہے، یہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی اشیا بیچ رہے ہیں، کراچی میں کئی چیزیں اسمگل شدہ ہیں، یہ کسی قسم کی دستاویزی شکل میں جانے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں ایک مارکیٹ میں سلک کا کپڑا ملتا ہے، پاکستان میں سلک کا سارا کپڑا اسمگل شدہ ہے-
پاکستان میں دوسرا بڑا ٹیکس چور مافیا بڑے کسان ہیں۔ اور یہ تمام سیاسی لوگ ہیں ان کا سیاسی اثر و رسوخ انہیں ٹیکس نہ دینے سے بچاتا ہے۔
پاکستان میں تیسرا بڑا ٹیکس چور طبقہ اسمگلرز کا ہے۔ بارڈر سے لے کر سکھر تک تمام افراد اسی پیشے سے منسلک ہیں۔
پاکستان میں سالانہ ساڑھے چار ٹن سونے کی کھپت ہے جو مارکیٹ میں نیا آتا ہے، ایک تولہ بھی امپورٹ نہیں ھوتا- ریٹیلرز میں سب سے کم ٹیکس جیولرز سے آ رہا ہے۔
قبائلی علاقوں میں اسٹیل ری رولنگ کی ملوں پر نہ بجلی کا بل اور ٹیکس سمیت کچھ بھی نہیں دیتے اور جمرود کے ساتھ وہاں فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں، یہ وہاں سریا بنا کر پاکستان میں بیچتے ہیں، یہ اگر سریا وہیں بیچیں تو اس کی اجازت ہے لیکن پاکستان میں بیچنے پر ان پر ٹیکس لگتا ہے جو وہ ادا نہیں کرتے۔
اسی طرح تقریبا ۹۰۰ ارب روپے کی سالانہ بجلی چوری ھوتی ھے-

Visited 2 times, 1 visit(s) today

You might be interested in