کتاب کہانی-قسط نمبر3_
تحریر : وثیق الرحمان
کتاب سے پہلی ملاقات 1972کے کسی مہینے میں ہوئی ۔۔۔پرائمری سکول نمبر 1داخل ہونے سے ایک روز پہلے اردو کی پہلی مشہور کتاب ا۔ انار۔۔۔ بے بکری والی۔۔۔نیا بستہ تختی اور کانے کے دو قلم ایک موٹا ایک باریک ۔۔۔گاچی۔۔۔سلیٹ اور دو سلیٹیاں۔۔۔ملیں تو دل خوش ہو گیا نئی کتابیں نیا بستہ اور سکول کا رستہ۔۔۔پہلے دن مجھے سکول جانے کی بہت خوشی اور اشتیاق تھا۔۔۔۔۔اگر آپ کو اوپر فہرست میں بعض چیزوں کا نہیں پتہ چلا کہ یہ کیا ہیں۔۔۔گاچی ۔۔یا سلیٹی والا ۔۔تو کوئی بات نہیں پھر ان کی تفصیل بتانے سے بھی اپ کو سمجھ نہیں چلنے والی کہ یہ کیا تھیں۔۔۔صرف اتنا تذکرہ کافی ہے کہ بہت مفید اور کار آمد اشیا تھیں۔۔ جو سکول کے میدان جنگ کے موثر ہتھیار تھے ۔۔پہلے دن سکول جانے کی خوشی چند دنوں میں بعد ہی اداسی اور پریشانی میں تبدیل ہونے لگی۔۔۔پہلے دن تو ٹاٹ پر ایک کونے میں کسی اور کو اٹھا کر ماسٹر جی نے والد صاحب کے سامنے مجھے بیٹھنے کے لیے جگہ فراہم کر دی۔۔۔کہ وہ مطمین ہو جائیں۔۔۔لیکن اگلے روز جب میں کلاس میں گیا تو لڑکا دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا۔۔وہ دنیا سے میرا پہلا انٹر ایکشن تھا۔۔۔۔۔بقا کی جنگ کی وہ شروعات تھی۔۔۔اور آج تک اسی جنگی کیفیت میں ہیں کہ ٹاٹ پر کوئی اور نہ بیٹھ جائے۔۔۔۔یہ چھوٹے چھوٹے معرکے اپنا معلم خود ہی بن جاتے ہیں۔ کلاس میں جن۔۔ابتدائی تنازعہ جات ۔۔۔سے تعارف ہوا۔۔۔ان۔میں ٹاٹ کے اوپر اچھی جگہ تلاش کرنا۔۔۔نہیں تو تھوڑا سا اور نیچے بیٹھنا پڑتا۔۔۔یعنی کوئی خاص فرق نہیں تھا وہ بھی ٹھنڈی زمین یہ بھی ٹھنڈی جگہ لیکن انا بھی تو کوئی چیز تھی۔۔۔انا بھی ان دونوں تعلیم کے ساتھ ہی پرورش پا رھی تھی ۔ ۔۔کلاس فیلو کے ساتھ مختلف ایشوز کے اوپر جب تناو پیدا ہوتا تو انا ۔۔۔مزید مضبوط ہونے لگی۔۔۔ایغو ۔۔ناہموار زمیں پر سفر کر رھی تھی۔۔۔صاف تختی کس کی ہے۔۔۔۔کون سے بچے کی دوات کے پکل ڈوبے ہوتے ہیں۔۔۔سکا کس کا زیادہ چمک دار ہے۔۔۔کس کی کتابیں جلد والی ہیں۔۔۔موٹی تختی کس کی ہے۔۔۔۔یہ وہ پہلے معاشرتی دباو تھے ۔۔۔جو طبعیت پر گراں تھے۔ہر روز توانائی تعلیم پہ کم ان جنگوں میں زیادہ استعمال ہو رھی تھی ۔۔۔اگلے روزں نئے جزبوں نئے صاف کپٹروں کے ساتھ پھر وھی معرکے۔ واپسی پہ کیچڑ والے کپٹروں کے ساتھ واپسی۔ منہ پہ سیاھی اور نانخن لگنے سے بننے والے خون کے چھوٹے نشان جو آج بھی چہرے پہ بچپن کی جنگوں کی وار ٹرافی کے طور پر موجود ہیں۔۔۔لیے واپس آتے۔۔۔ماں دیکھتے ہی پریشانی سے پوچھتی وے اج فیر ۔۔۔لڑیاں کسسے نال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیر چھپڑ وچ وڑیا سین۔۔۔۔کوئی جواب سمجھ نہیں آتا تھا کہ ماں کو کیسے بتاوں کہ سکول کی نئی دنیا تھی ۔۔سجن کم دشمن زیادہ ۔۔۔مصیبت یہ تھی کی پاس ہی ایک عظیم یادگار چھپڑ تھا جسے اب ہم تالاب کہتے ہیں اسی تالاب کے کونے میں چھوٹی سی بندرگاہ تھی جہاں تختیاں دھوتے تھے۔۔۔یہ بندرگاہ بناتا کون تھا نہیں پتا چلا۔۔۔۔ہر روز تھوڑی گہری ہوتی جاتی اور اس کی جگہ بھی بدلتی رہتی تھی۔۔اس تختیاں دھونے کے دوران تختی کو پانی میں پھیکنے کی مہم زور پکڑ لیتی کہ کس کی تختی پہلے تالاب کے اس کنارے پہ پہنچتی۔۔۔پہلے تختی پھینکتے پھر اس کی رفتار بڑھانے کے لیے اس کے پاس پتھر۔۔۔پھینکتے کہ لہروں کے دباو سے رفتار بہتر ہو جائے۔۔۔پتھر یعنی۔۔ گیٹے۔۔ پہلے ہی بستہ میں سٹاک کیے ہوتے تھے۔۔۔یہ اسلحہ نئی بننے والی سڑ کوں کے پاس سے عام دستیاب تھا۔۔ اور ایسے جتنے بھی اسلحہ ڈپو تھے ان سب کی خبر رہتی تھی سکول کے ہر نالائق طالب علم کو ۔۔۔
یعنی سبھی کو ہوتی تھی۔۔۔ کیوں کہ سبھی نالالق تھے۔۔۔ اور یکساں تھے۔
داستان۔۔شھدائے چوندہ پبلک لائبریری