آئندہ الیکشن اور ن لیگ میں وزیر اعظم کی تلاش
اہم اور فوری نوعیت کے سنگین تر مسائل کو ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے ہوئے قارئین وناظرین کو فروعات میں الجھانا کوئی ہمارے آزاد و بے باک میڈیا سے سیکھے۔ مارکیٹ میں نیا شگوفہ اس تناظر میں نہایت سنجیدگی سے یہ سوال اٹھاتے ہوئے چھوڑا جارہا ہے کہ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اگر آئندہ انتخاب کی بدولت اکثریتی جماعت بن کر ابھری تو وزیر اعظم کسے نامزد کیا جائے گا۔ہماری ایک دیرینہ ساتھی محترمہ نادیہ مرزا نے یہ سوال اپنے شو میں شاہد خاقان عباسی کے روبرور کھا۔موصوف لگی لپٹی کے عادی نہیں۔ترنت جواب دیا کہ مسلم لیگ (نون) کے صدر ہوتے ہوئے شہباز شریف صاحب ہی مذکور ہ عہدے کے حقدار ہوں گے۔لمحۂ موجود کے ٹھوس سیاسی حقائق اس کے علاوہ کسی اور جواب کی گنجائش ہی فراہم نہیں کرتے۔میڈیا نے اسے مگر کاتا اور لے دوڑی والا معاملہ بنادیا۔
بہت دنوں سے خود کو انتہائی باخبر تصور کرتے ہوئے صحافیوں کی اکثریت اپنے تئیں یہ طے کربیٹھی ہے کہ نواز شریف اپنے برادر خرد کے مفاہمانہ انداز سیاست سے خوش نہیں۔ اسی باعث سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہونے کے بعد انہوں نے شاہد خاقان عباسی کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لئے نامزد کیا تھا۔ان کی جماعت اگر آئندہ انتخاب کی بدولت اکثریتی جماعت بن گئی تو وہ غالباََ تاریخ دہرانے کو ترجیح دیں گے۔
اپنی محدودات تسلیم کرتے ہوئے اقتدار میں حصہ کے طالب ڈیروں اور دھڑوں والے نون لیگی شاہد خاقان عباسی کو اپنے برعکس تھواڑ انتہا پسند تصور کرتے ہیں۔ٹی وی کے ہر شو میں وہ حصہ لینے کو فوراََ آمادہ ہوجاتے ہیں اور دل کی بات کھل کر بیان کردیتے ہیں۔ان کے مقابلے میں شہباز شریف صاحب ’’نیویں نیویں‘‘ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ہماری سیاست کی مبادیات کو بخوبی جاننے کے دعوے دار ہوتے ہوئے وہ جبلی طورپر وطن عزیز میں اقتدار کے اصل منبعوں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ان سے ہوئی ملاقاتوں کے دوران اپنی انتظامی صلاحیتوں کو جذباتی انداز میں یاد کرتے ہیں۔انہیں اور ان کے وفاداروں کو گماں ہے کہ عمران خان صاحب کو مبینہ طورپر وزیر اعظم ہائوس پہنچانے والی قوتیں ان سے اب مایوس ہونا شروع ہوگئی ہیں۔مہنگائی اور بے روزگاری کی مسلسل لہرنے بھی انہیں پریشان کررکھا ہے۔ایسے حالات میں وہ شہباز شریف صاحب کی انتظامی صلاحیتوں سے دوبارہ رجوع کرنے کی بابت سنجیدگی سے سوچ رہے ہوں گے۔بات مگر اس لئے آگے نہیں بڑھ پارہی کیونکہ لندن میں مقیم نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی کو مقتدر قوتوں سے مک مکا کرنے کی اجازت نہیں دے رہے۔
عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوامیں ریٹائر ہوچکا ہوں۔سیاسی معاملات کی ٹوہ لگانے کی علت اگرچہ اب بھی لاحق ہے۔اس علت سے مجبور ہوکر میں نے شہباز شریف کی بابت مارکیٹ میں پھیلے تاثر کا تھوڑی لگن اور محنت سے جائزہ لیا۔ کئی باخبر اور ذمہ دار افراد سے گفتگو کے بعد میں یہ دعویٰ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کا فی الوقت کوئی منصوبہ ہی تیار نہیں ہوا۔ اسے بروئے کارلانے کی کاوش تو بہت دور کی بات ہے۔اپوزیشن کا جی بہلانے کو یہ تاثر اگرچہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے تئیں عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا بندوبست کرلیں تو مقتدرقوتیں غیر جانب دار رہیں گی۔غیر جانب داری کا تاثر دیتے دلاسوں کے باوجود اپوزیشن کی تمام جماعتیں باہم مل کر بھی عمران حکومت کو حال ہی میں محض ایک دن میں 33قوانین پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے یکمشت منظور کروانے سے روک نہیں پائی۔ رواں ماہ کے آخری ہفتے میں 300ارب روپے کے نئے ٹیکس لاگو کرنے والا منی بجٹ بھی قومی اسمبلی میں پیش ہونا ہے۔میرا خیال ہے کہ حکومت اسے بھی بآسانی منظور کروالے گی۔اسے منظور کروانے کے لئے اپوزیشن کو دلاسہ دینے والی قوتیں بھی متحرک ہوں گی۔آئی ایم ایف کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیں گی کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے کئے وعدوں پر ریاست پاکستان عمل درآمد کے قابل نہیں رہی۔
منی بجٹ منظور کروالینے کے بعد عمران خان صاحب خود کو ناقابل تسخیر سمجھنا شروع ہوجائیں گے۔نئے ٹیکسوں کی بدولت مہنگائی کی جو شدید ترین لہر نمودار ہوگی اس سے توجہ ہٹانے کے لئے میری دانست میں اپوزیشن جماعتوں میں مبینہ طورپر گھسے چوراور لٹیروں کی گرفتاریوں کا نیاسلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے۔شہباز شریف صاحب ممکنہ تناظر میں پہلے ہی سے نشان زد ہوئے نظر آرہے ہیں۔ان کے فرزند حمزہ شہباز شریف کوبھی احتسابی عتاب کے ایک اور دور کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا ووٹ بینک یقینا اب بھی خاصا طاقت ور ہے بالخصوص وسطی پنجاب کے شہروں اور دیہات میں ۔یہ ووٹ بینک مگر تحریک لبیک جیسی جماعتوں کے کارکنو ں کی طرح اپنے رہ نمائوں کی گرفتاری سے چراغ پا نہیں ہوتا۔خاموشی سے برداشت کرلیتا ہے۔شہباز صاحب نے مسلم لیگ (نون) کی قیادت سنبھالنے کے بعد مذکورہ رویے کو بھرپور عوامی رابطوں کے ذریعے ’’انقلابی‘‘ بنانے کی کوشش کبھی کی ہی نہیں۔اسی باعث عمران حکومت ان سے خائف محسوس نہیں کرتی۔
آئندہ وزیر اعظم کا نام طے کرلینا موجودہ حالات میں ویسے ہی سوت نہ کپاس۔کولہو سے لٹھم لٹھا جیسا کار بے سود نظر آتا ہے۔آئینی اعتبار سے عمران خان صاحب کو اپنے منصب پر اور موجودہ قومی اسمبلی کو 2023کے وسط تک برقرار رہنا ہے۔نئے انتخاب مذکورہ سال کے آخری ہفتوں میں ہوں گے۔عمران حکومت کے کئی ارسطو مگر سنجیدگی سے یہ سوچ رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات اگر 2023میں شیڈول کے مطابق ہوئے تو مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آئے عوام کی اکثریت تحریک انصاف کی حمایت میں ووٹ ڈالنے سے گریز کرے گی۔ اگر ممکن ہو تو آئندہ انتخابات کو چند ماہ تک مؤخر کردیا جائے۔ فرض کیا جارہا ہے کہ منی بجٹ وغیرہ کی بدولت ہمارے ہاں ممکنہ طورپر جو معاشی استحکام فراہم ہوگا اور قومی خزانے میں ٹیکس جمع کروانے کی عادت لوگوں میں پختہ ہوجائے گی تو ان کے مثبت اثرات 2024کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ثابت کئے جاسکتے ہیں۔
انتخاب کو کم از کم ایک سال کے لئے مؤخر کرنے کا جواز وہ قانون فراہم کرتا ہے جس نے الیکشن کمیشن کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا پابند کیا ہے۔اس کے علاوہ غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ پول کروانے کا بندوبست بھی فراہم کرنا ہے۔
2023کے بجائے 2024تک اپنی حکومت برقرار رکھنے کے جواز ڈھونڈتے صاحبانِ بصیرت وبصارت کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ (نون) کی صفوں سے نیا وزیر اعظم تلاش کرنا مجھے تو بچوں کو مصروف رکھنے والا کھیل ہی نظر آرہا ہے۔