برگیڈیئر صولت رضاکی تصنیف “کاکولیات ” پر لبنی مقبول کا پر اثر تبصرہ ؛


زیر تبصرہ کتاب ”کاکولیات“ بریگیڈیئر صولت رضا صاحب (ر) کی اس وقت کی ایک شاہکار آپ بیتی ہے جب وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں بحیثیت کیڈٹ زیر تربیت رہے۔ کتاب کا نام کاکولیات بھی اسی عظیم تربیت گاہ سے تعلق کے تناظر میں رکھا گیا ہے۔ اس سفر کا آغاز پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے کیفے ٹیریا سے اس وقت ہوا جب انہوں نے فوج کے کمیشن کے امتحان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور پھر یہ سفر کمیشن کا امتحان پاس کرنے سے لے کر کیڈٹس کے پاس آؤٹ ہونے تک کے مشکل ترین مراحل کی دلچسپ داستان کو خوبصورتی کے ساتھ سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوا۔

کتنی ناقابل یقین سی بات لگتی ہے کہ بریگیڈیئر صولت رضا صاحب (ر) نے اکیڈمی کی سخت اور نظم و ضبط والی زندگی میں دوران تربیت، تپتے ہوئے ریتلے میدانوں میں سے بھی خوشگوار لمحوں کے پھول چنے، ان کی دلفریب خوشبو کو محسوس کیا، اس خشک ماحول میں شگفتگی کی چاشنی ڈالی اور پھر نہایت مہارت سے ایک ایک لمحے کو جذیات کے ساتھ اپنے فطری سادہ و بے ساختہ انداز میں اپنے قارئین کے سامنے رکھ دیا۔

اس طرح کاکول اکیڈمی میں کمیشن حاصل کرنے والے آرمی افسران کی دوران تربیت ان پیشہ ورانہ سختیوں سے گزر کر کندن بننے کی روئیداد جب عوام تک پہنچتی ہے تو ان کے دلوں میں اپنی افواج سے محبت مزید بڑھ جاتی ہے۔

زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے قارئین نے بھی ان کی اس کاوش کو بے حد سراہا۔ کتاب کی پسندیدگی و پذیرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکتوبر 1975 کو اپنی اولین اشاعت کے بعد سے اب تک اس کے 31 ایڈیشن چھپ کر مارکیٹ میں آ چکے ہیں اور اتنے برس گزرنے کے بعد بھی اس نثر کی تازگی و شگفتگی برقرار ہے۔

بریگیڈیئر (ر) صولت رضا صاحب کی منظر کشی کمال کی ہے۔ ”کاکولیات“ پڑھتے ہوئے مستقل یہ احساس رہا کہ جیسے یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہی ہو رہا ہو۔ بارہا خود کو اسی منظر کا حصہ محسوس کیا۔ کیونکہ صولت رضا صاحب بہت محبت اور انکساری کے ساتھ، اپنے اس تربیتی سفر کے آغاز میں ہی اپنے قاری کا ہاتھ پکڑ کر اسے بس حویلیاں ریلوے اسٹیشن تک لے کر جاتے ہیں، سخت کڑکتی سردی میں گرما گرم چائے پلاتے ہیں اور وہاں ہونے والی گپ شپ میں شامل کر لیتے ہیں مگر پھر جب وہاں سے وہ اپنے آگے کے تربیتی سفر پر ملٹری اکیڈمی کاکول کے لیے روانہ ہوتے ہیں تو صورتحال یکسر مختلف ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ اب قاری خود وفور شوق سے لبریز ہو کر ان کا ہاتھ تھامے ان کے پیچھے پیچھے چل پڑتا ہے اور ان کے ساتھ ہی کیڈٹس کی اس ٹریننگ میں شامل ہو جاتا ہے جو سخت اور دشوار تو ہوتی ہے مگر ناممکن نہیں۔

گو کاکول آمد کے پہلے ہی دن بحیثیت جونیئر کیڈٹ کے اکیڈمی کے سینئر کیڈٹس سے پہلی دلچسپ ملاقات میں ”جنٹلمین کیڈٹ“ بننے کا خمار ”فرنٹ رول“ کرنے کے ساتھ ہی اترنا شروع ہو گیا تھا مگر ’ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘ کہ مصداق ”روٹ مارچ“ اور ”نائٹ کلب“ جیسے امتحان جونئیر کیڈٹس کے معمولات میں شامل نظر آئے۔

اب پی ایم اے کے گراؤنڈز کا ذکر خیر ہو یا میس میں چھری کانٹوں کے ساتھ آم کھانے کی روداد، شگفتہ انداز بیاں قاری کی طبیعت میں بشاشت پیدا کر دیتا ہے اور اسے زیرلب مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ان دلچسپ واقعات کے ساتھ بالآخر ”ہائے پاسنگ آؤٹ“ میں کوئیک مارچ اور لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ کرنے کے بعد ”مبارک، مبارک مبارک“ ، ”خدا کا شکر ہے“ جیسے جملے کیڈٹس کے ساتھ قارئین کے اندر بھی خوشی کی ایک لہر دوڑا دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ خود بھی ایک سخت فوجی ٹریننگ کو ہنستے مسکراتے پورا کر گئے ہوں۔

اردو ادب کے نامور مزاح نگار بریگیڈیئر صدیق سالک (شہید ) کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ۔

” اگر کاکول کی سنگلاخ زمین پر پاؤں مار مار کر صولت رضا کا قد گھس گیا ہے تو اسے فکر نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ“ کاکولیات ”نے اس کا ادبی قد اونچا کر کے اس کی تلافی کردی ہے۔“

”میرا پلاٹون“ میں پلاٹون کمانڈر، اسٹاف پلاٹون، پی ٹی اسٹاف اور کیڈٹس کے ذکر میں صولت رضا صاحب کی خاکہ نگاری بھی اوج کمال پر نظر آئی۔ وہ اس خوبصورتی سے ان تمام فوجی لوگوں سے اپنے قاری کا تعارف کراتے ہیں کہ قاری ان تمام لوگوں سے آگے بڑھ کر مصافحہ کرتا ہے اور ان کو کاکول میں اپنے سامنے چلتے پھرتے دیکھتا ہے۔

کلاس روم کا احوال بیان کرتے ہوئے بریگیڈیئر (ر) صاحب لکھتے ہیں کہ۔

” کلاس روم آرام دہ تھے۔ یہی آرام کئی کیڈٹوں کو لے ڈوبتا۔ تھکے ماندے کیڈٹ جب جنگی داؤ پیچ کی کلاس میں اونگھتے تو ان کی گردن جیومیٹری کے لحاظ سے پہلے نصف قوس بناتی اور پھر یکایک اپنی اصلی حالت میں واپس آ جاتی۔ گردن کی یہ آمدورفت انسٹرکٹر کو دور سے دکھائی دیتی تھی۔ نیند سب کو آتی تھی۔ کچھ کنٹرول کر لیتے، لیکن بعض ایسے سوتے کہ صرف آنکھیں کھلی ہیں باقی سارا جسم سو رہا ہے۔ ایسے کیڈٹ کو جب اچانک کسی سوال کا جواب دینے کے لیے کھڑا ہونا پڑتا تو پی ایم اے سے منسوب لطیفوں میں مزید دو تین کا اضافہ ہو جاتا۔“

اسی طرح کیڈٹس کی مشقوں کے علاقوں میں اچانک برس جانے والی بارش کی دلچسپ داستان اس طرح بیان کرتے ہیں۔

”۔ بارش کے پانی نے کھانے پینے کے سامان پر خاص نگاہ رکھی تھی۔ وہ تھوڑی سی تگ و دو کے بعد اسے ورغلانے میں کامیاب ہو گیا۔ کیڈٹ کے سامنے اس کا لنچ اور ڈنر پانی پر سواری کر رہا تھا۔ شاید اسے ہمارا کندھا پسند نہیں آیا۔ دال ماش سرعام اٹکھیلیاں کھا رہی تھی۔ بھنا ہوا گوشت یوں بھاگ رہا تھا جیسے اس میں دوبارہ جان پڑ گئی ہو۔ کس کس کا ذکر کریں! سب ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔“

یہ حقیقت ہے کہ مزاح لکھنا حد درجہ سنجیدگی کا کام ہے۔ مزاح کی بنیاد سنجیدہ مگر تکلیف دہ مشاہدات پر رکھی جاتی ہے اور اس مشکل بیڑے کو پار کرنے کے لیے مزاح نگار کو دو دھاری تلوار پر چلنا پڑتا ہے۔ اور یہ تلوار اس وقت اور خطرناک ہو جاتی ہے جب ذکر پاک فوج کی عسکری تربیت کا ہو کیوں کہ مقصد اس جذبے کو تروتازہ رکھنا ہے اور شوق کو مہمیز کرنا ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔

کاکولیات میں بریگیڈیئر صولت رضا کے لہجے کی لطافت اور ظرافت عروج پر دکھائی دیتی ہے جس میں تحریر کی شگفتگی، سلاست اور روانی نے مزید اضافہ کیا۔

کاکولیات کے لیے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ کتاب پاکستان ملٹری اکیڈمی کے نئے اور پرانے کیڈٹوں کے لیے ایک نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں سے وہ بہت سارے معاملات سے نہ صرف آگاہی حاصل کرتے ہیں بلکہ پاس آؤٹ ہونے کے بعد اپنی پیشہ ورانہ فوجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران بھی اپنا رابطہ اپنی اس بنیادی تربیت گاہ سے جب چاہے جوڑ لیتے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین ( مدیر ہلال میگزین ) کی اس بات سے ہم سب متفق ہوں گے کہ ”عسکری ادب میں“ کاکولیات ”ایک ٹریڈ مارک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ گویا عسکری ادب“ کاکولیات ”کے بغیر نامکمل ہے۔“

Visited 2 times, 1 visit(s) today

You might be interested in