بعداز کرونا طرز زندگی

عالمی سطح پر حکومتوں اور میڈیکل سائنس کی کارکردگی اور ترقی کی گونج  کو ماپنے کے لئے کرونا ایک بہترین آلہ ثابت ھوا ھے۔ دنیا میں ایک  نئی بحث جنم لے چکی ھے کہ کون سا طرز حکمرانی اپنے ملک اور عوام کی حفاظت کے لئے بہتر ھے۔ چین نے عالمی افق پر یہ ثابت کیا کہ موجودہ دور میں بحثیث قوم اور معاشرہ ان کا کوئی ثانی نہیں۔ کرونا ایک عالمی وبا ہے – لیکن یہ ایک وبا سے زیادہ  سیاسی مسئلہ ابھر کر سامنے آیا۔  سیاسی مسائل عام آدمی کے لئے انتہائی دلچسپی کا باعث ھوتے ہیں – اسی لئے ہمارے ہاں ہر مسئلے کو چاہے وہ  ۹/۱۱ ھو، ۲۰۰۵ کا زلزلہ ہو، دھشت گردی ہو، ۲۰۱۰ کا سیلاب اسے یا ۲۰۱۹ کا کرونا اسے سیاسی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

دسمبر2019  کو چین کے شھر وہان سے شروع ھونے والی وبائی مرض کرونا نے ڈیرھ سال کے عرصے میں عالمی اور علاقائی سطح پر معاشرتی معاشی اور سیاسی طور پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کے رہ گئی ھے۔ تعلم ، ایویشن، تجارت، میڈیکل، ٹرانسپورٹ نیز روز مرہ کے معمولات میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ کاروباری معاملات کے سلسلے میں بین الممالک سفر تقریبا ختم ہو گئے ھیں۔  کانفرنسیں اور سیمینار اب صرف آن لائن ہو کے رہ گئی ہیں۔  آئ ٹی کی افادیت شدت سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ہوٹل اور دوسری تقریبات کے لئے کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ریسٹورینٹس میں کھانے کا رواج تقریبا ناپید ہو گیا ہے۔ سیاحت کی صنعت شدید دباؤ میں ہے۔ بہت سے کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں۔ جس سے کاروباری طبقے اور اس سے وابستہ  روزگار کو شدید دھچکا لگا ہے۔ زندگی کے معمولات کو آئن لائن چلایا جا رہا ہے۔کرونا نے پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں بھی  آن لائن شاپنگ  کو مقبول کیا ہے۔ ورک فرام ہوم ایک نئے تجربے کے طور پر سامنے آیا ہے۔  طلباء اور طالبات اپنے کالجز اور یو نیورسٹیوں کی زندگی تقریبا بھول چکے ہیں۔ ساری مہلک بیماریاں اب کرونا کی وبا کے نیچے کہیں دبی پڑہی ہیں۔ سات ارب کی آبادی میں شاید ہی کچھ ہوں جو ماسک سے اپنا چہرہ نہ چھپائے پھر رہے ہوں۔ کرونا کی وبا میں بزات خود بہت  مشکل  مرحلے آئے اور گزر گئے – ان تمام مراحل میں انسانی زندگی سرا سیمگی کا شکار نظر آئی۔ نہ میڈیکل سائنس کے سامنے کوئی حل موجود تھا اور نہ سیاسی آقاؤں کے سامنے کوئی راستہ۔ کانفرنسیں تو ہو رہی تھیں لیکن نتیجہ ، لا حاصل۔ فیس ماسک کے استعمال سے وبا کے پھیلاؤ پر قابو، انسانی ذہانت کی انتہا تھی۔ اشتہارات  صرف محتاط رہنے کا مشورہ دینے تک محدود تھے۔یہلے مرحلے میں کرونا کا ٹیسٹ اور ماسک کی فراوانی ایک بہت بڑا امتحان تھا۔ اس سے بھی قبل تمام ممالک نے اپنی سرحدوں پر دوسرے ممالک سے آنے والوں کے لئے پہرے بٹھا دیے۔  پھر کورنٹائن کی ایس او پیز متعارف ہوئیں۔زندگی کے تمام رشتے ناتے اور عہدو پیماں آن لائن ہونے لگے۔ لاک ڈاون ہونے کے بعد اپنے گھر ہی والوں کے چہرے جو غور سے دیکھنے کا موقع ملا۔ موبائل ہاتھ میں رکھنے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ اب اپنوں کا ہاتھ پکڑنے سے عجیب سی جھجک محسوس  ھوتی ہے۔ اب ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو کر خیر خیریت پوچھنے میں شرم محسوس ہوتی ہے-ہسپتالوں میں نا تو آئسو لیشن وارڈ اتنے بڑے تھے اور نہ ہی مریضوں کے لئے وینٹی لیٹر۔ پھر لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن پر بحث شروع ہوئی۔ اس تمام عرصے میں انسان کی سائنس اور سماجی ترقی کے بلند بانگ دعوں کی کلی کھل گئی۔ میڈیا میں صرف ایک ہی خبر گردش کرتی نظر آئی کہ کتنے جاں بحق ہوئے اور کتنے ٹیسٹ مثبت آئے۔  مثبت ٹیسٹ کا خوف اتنا تھا کہ لفظ نیگٹو  مبارکباد کا مستحق ٹھرا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مرنے والوں کی تعداد کا بھی یارا نہ رہا۔ اب تک عالمی وبا سے دنیا میں ۳۰ لاکھ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اور دنیا کے سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ ملک میں  جان بحق ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اسی دوران عالمی افق پرمعیشت کی تباھی کا شور شرابہ سنائی دینے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا اموات سے زیادہ معیشت ضروری ھے اور غالبا یہ صیح بھی تھا۔ حکومتوں کو فکر لاحق ہوتی جارھی تھی کہ زندہ بچ جانے والوں کی روز مرہ کی ضروریات کے لئے کیا انتظامات کئے جائیں۔ چین کے علاوہ شاید ہی کوئی حکومت اس سلسلے میں سرخرو ہوئی ہو۔ پوری دنیا میں ویکسین کی تیاری کے لئے کوششیں کی جا رہی تھیں۔

ستمبر- اکتوبر ۲۰۲۰ کے بعد کرونا کا خوف اھستہ آھستہ کم ھونا شروع ھوا تو ماسک غائب ھونے لگے۔ جنوری- فروری میں ویکسین بھی مارکیٹ میں آگئی۔ ایسا لگا کہ انسان نے کرونا پر قابو پا لیا ھے۔ ابھی ویکسین ۱% افراد کو بھی نہیی لگ پائی تھی کہ کرونا کی تیسری لہر نے دنیاکو  اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں ۲۲۰ ملین  کی آبادی میں اب تک ۲ ملین کو ویکسین لگ چکی ھے۔ اندازہ ھے کہ پورے ملک میں ھر فرد کو ویکسین لگانے کے لئے اس رفتار سے ۸ مزید سال لگ سکتے ھیں ۔ حکومت کی کرونا کے خلاف پالیسی کو دیکھتے ھوئے اب اداروں اور تنظیموں نے ذمہ داری خود سنبھال لی ھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رھا ھے کرونا خطرناک اور سوسائٹی بے پرواہ ھوتی جارھی ھے۔ حکومتی بے حسی کا  تو کیا ذکر ، وہ تو ان ھماری روز مرہ کی زندگی کا  حصہ بن چکاھے- لوگ اپنی زندگیوں سے بے پرواہ نظر آرھے ھیں۔ درد جب حد سے بڑھ جائے تو دوا ھو جاتا ھے۔ ان تمام مراحل میں ورلڈ این جی اوز کا کوئی خاطر خواہ کام نظر نھی آیا۔  بلکہ یو این بھی بے بس نظر آیا۔

 کرونا ایک انتباہ ہے دنیا کے لئے کہ تیار ہو جاؤ مستقبل میں  ماحولیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خطرات اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے مقابلے کیلئے۔ کرونا کی تباہی کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بات واضع ہے کہ بڑے اور عالمی بحرانوں پر صرف عالمی سطح پر تعاون سے قابوپایا جا سکتا ھے

*عتیق الرحمان

Visited 1 times, 1 visit(s) today

You might be interested in