بھٹہ مزدور کا نسل در نسل استحصال

بڑے بڑے شہر، سوسائیٹاں ، ٹاؤن ، پلازے جن اینٹوں سے بنتے ہیں، ان اینٹوں کو بنانے والوں کی اندوہناک کہانیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے- بھٹہ مزدور نسل در نسل بٹھہ مالکان کے غلام بن کر کام کرتے ہیں – بٹھہ مزدور، پنجاب، سندھ، کے پی ، بلوچستان کہیں بھی ہو ظلم کی کہانی بالکل ایک جیسی ہے- انتہائی کم اجرت، معمولی قرضے کے نیچے دبے پورے پورے خاندان- ظلم کی ان داستانوں میں یکسانیت ایک بڑا سوال ہے- کیا یہ کلچرل معاملہ ہے، یا اس کے پس پردہ کوئی اور وجہ ہے-
۱۱ جون ۲۰۰۵ کو بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ” شیخوپورہ کے پاس چالیس سال سے اینٹیں بنانے کے بھٹہ پر کام کرنے والے بوڑھے نذیر مسیح کا کہنا ہے کہ وہ خدا سے دھوپ اور گرمی کی دُعا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بارش اور سردی میں اُن کا کام بند ہوجاتا ہے اور اُن کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔شیخوپورہ سے فیصل آباد جاتے ہوئے پندرہ کلومیٹر دور ولی پور بوڑہ نامی گاؤں میں اپنی بیوی اور بچوں سمیت کام کرنے والا ستر سالہ نذیر پندرہ ہزار آبادی کے اس گاؤں کی اس نصف آبادی میں شامل ہے جو دہکتے ہوئے سورج کے نیچے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتی ہے۔نذیر مسیح کا خاندان بھٹہ پر ایک سو روپے روزانہ اُجرت پر کام کرتا ہے کیونکہ ان کی اُجرت کے نوے روپے اس پیشگی ادائیگی میں سے کاٹ لیے جاتے ہیں جو انہوں نے بیماری، شادی اور موت کے مختلف موقعوں پر ٹھیکیدار سے لی تھی اور سود ملا کر جس کی رقم اب ایک لاکھ روپے تک جا پہنچی ہے۔ ٹھیکیدار ایک ہزار اینٹیں بنانے کے ایک سو نوے روپے اجرت دیتا ہے”-
۲۹ نومبر ۲۰۱۲ کو ڈان نیوز کی ویب سائٹ پر اسی طرح کی سٹوری چھپی کہ اسلام آباد کے نواح میں واقع ایک اینٹوں کی بھٹہ پر کام کرنے والے مزدور خاندان کے روزو شب۔
یہاں کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ان کی روزانہ اجرت تین سو روپے جبکہ چھوٹے بچوں کی اجرت ڈھائی سو روپے ہے-
۱۰ جون ۲۰۱۸ کو “ھم “ٹیلی ویژن نے اسی طرح کی سٹوری کی کہ بھٹہ مالکان مزدور کی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں قرضے کے بوجھ تلے دبا دیتے ہیں-
۲۸ فروری ۲۰۲۲ کو سماں ٹی وی پر بٹھہ مزدوری کے حوالے سے رپورٹ چلی کہ “مظفرگڑھ شہر سے 5 کلومیٹر دور بستی پیر جہانیاں کی رہائشی 40 سالہ کندن مائی اپنی زندگی کی 3 دہائیاں دہکتے ہوئے سورج کے نیچے اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے گزار چکی ہے۔ اس کے باپ دادا نے بھی اپنی زندگی اینٹیں تھاپتے گزاری۔ پیشگی نظام میں جکڑی کندن مائی روزانہ بامشکل 500/600 اینٹ بناتی ہے۔ سخت گرم اور ٹھنڈے موسم میں صبح سویرے کام پر پہنچ جاتی ہے اور گارے سے اٹے ہاتھ اور بھٹی کی حدت سے دن کا آغاز ہوتا ہے۔دن بھر کی مشقت کے بعد مزدوری کی رقم میں سے آدھی رقم تو پیشگی ادائیگی میں کٹ جاتی ہے جو انہوں نے بیماری، شادی اور موت کے مختلف موقع پر ٹھیکے دارسے لی ہوئی ہے۔ کندن مائی کا کہنا تھا کہ اس کو کبھی پوری مزدوری نہیں ملی”- استحصالی کی یہ داستانیں معاشرے کا المیہ ہیں اور شاید اسی نا انصافی کی سزا پورا معاشرہ بگھت رہا ھے-

Visited 1 times, 1 visit(s) today

You might be interested in