حکومت عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت نہ کرے، چیف جسٹس
راولپنڈی (نیوز ڈیسک )مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں پرچیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحیداور جسٹس حسن اظہر رضوی پانچ رکنی بینچ کا حصہ ہیں۔اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے کہا کہ ہم اس بینچ پر اعتراض کررہے ہیں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ہمیں خوشی ہے کہ آپ اعتراض کررہے ہیں، اعتراض کرنا آپ کا حق ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس فورم پر اس عدالت کا جج رکھا گیا وہ چیف جسٹس کی اجازت سے ہونا چا ہیے تھا،اس فورم کے لیے چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ وہ جج کا انتخاب کرتے، حکومت نے اپنی مرضی سے ایک جج مقرر کیا،ہمیں آئین کا احترام کرنا چاہیے، آپ نے درخواست کی ہے ہم بعد میں سنتے ہیں۔اٹارنی جنرل عثمان منصوراعوان نے کہا کہ میرا کام تھا آپ کو آگاہ کرنا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو آگاہ کریں کہ آئین کو نظر انداز نہ کریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم آپ کے اعتراض سے متعلق تیار تھے، حکومت کو چاہیے کہ آئین کا احترام کرے، ماضی کے کئی ایسے فیصلے موجود ہیں جس میں اس فور م کے لیے چیف جسٹس سے پوچھا جائے گا۔حکومت نے قانون بناتے وقت کئی غلطیاں کی ہیں، ہم سے مشورہ کرتے تو ہم صحیح راہ دکھاتے، ہمارے انتظامی امور پر بنائے گئے قانون میں ہم سے پوچھا تک نہیں، آپ نے ہمارے معاملات میں مداخلت کی ہے، نو مئی کے واقعے کا فائدہ یہ ہو اکہ جو عدلیہ کے خلاف بات کرتے تھے وہ اب نہیں کرتے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر جھگڑنا ہے تو آپ ٹرائیکاٹومی آف پاور پر تیاری کرکے آئیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو جواب دیا کہ ہمارا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے اپنی مرضی سے ججز شامل کر کے کمیشن بنا دیا، چیف جسٹس آئینی عہدہ ہے،عدلیہ سے ایگزیکٹیو الگ رہے،عدلیہ کے اختیارات میں حکومت مداخلت نہ کرے،حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے؟چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے،بہت ہوگیا ہے آپ بیٹھ جائیں۔عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار اوردیگر نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستیں دائر کی تھیں، واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس پیر کوہوا تھا۔