خیالی تجزیہ
تحریر: شدو مد
میں ابتداء میں ھی واضح کر دینا چاھتا ھوں کہ یہ کالم پڑھتے ھوتے اپ احتیاط کو مد نظر رکھیں کیونکہ یہ میراپہلا سیاسی تجزیہ ھے اور تجزے کیلئے سوشل میڈیا پر چلنے والی افواھوں کا سہارا لیا گیا ھے۔
بنیادی طور پر دو نظریات آمنے سامنےھیں۔ ایک حق اور سچ اور دوسری طرف ووٹ کی عزت کا معاملہ ۔ حق کے پیروکارں نے حق کو وزیر اعظم کے ساتھ جوڑ رکھا ھے کہ اگر وہ وزارت اعظمی کی کرسی پر براجمان رھے تو حق ھے وگرنہ ھم نھی مانتے۔ اکثر مقامات پر بات گالی گلوچ تک بھی پہنچی ھے۔ یھاں یہ بتانا ضروری ھے کہ موسم گرما کی تیزی سے آمد کی وجہ سے یہ لڑائی وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر ھی ھو رھی ھے۔ دوسری طرف ووٹ کی عزت کے لئے ھر سطح بات ھو رھی ھے کہ حکومت واپس مل جائے۔ امید ھے کہ میاں صاحب ایک نڈر ، بہادر اور جمھوریت کے غازی بن کر واپس آئیں گے۔ ایک باخبر رپورٹر کی ٹویٹ کے مطابق ” مہنگائی لانگ مارچ کی قیادت نون لیگ راولپنڈی کے عہدیداران اور کارکنوں سے ہاتھ کر گئی۔ پہلے روات Tچوک سے مارچ کا رخ اچانک راولپنڈی کے بجائے ایکسپریس ہائی وے پر تبدیل کردیا،پھر فیض آباد پہنچے پر مریم نواز اورحمزہ شہبازچند گاڑیوں کےہمراہ فیض آباد انڑچینج سے راول ڈیم روڈ سے ھوتے ہوئے سرینا چوک چلے گے جبکہ انکے ہمراہ آنے والے شرکاء کی گاڑیاں مس لیڈ ہوکر آئی جے پی روڈ اور کچھ زیرو پوائنٹ کی طرف چلیں گئیں-جبکہ قائدین اور قافلے کے مختلف سمتوں میں جانے کے بعد حنیف عباسی کی ریلی مری روڈ سے اسلام آبادہائی وے پہنچی تو نہ قائد ملے نہ قافلہ ہمارےقائدین -قافلے کی3مختلف سمتوں پر نکل جانے سے لیگی کارکنوں میں مایوسی چھا گئی۔”
بہر حال کوئی ایک واقع کسی کے نظرے کی نفی نھی کرتا، روٹ تبدیل کرنے یا غائب ھو جانے کی بہت سی وجوھات ھو سکتیں ہیں۔
خاں کے حامیوں کا خیال ھے کہ پاکستان کی بقا کے لئے ان کا وزیر اعظم رھنا ضروری ھے۔
پی ڈی ایم کی تحریک میں مولانا فضل الرحمان اور بلاول پیش پیش ہیں۔ مولانا صاحب کی سوشل میڈیا پر باقاعدہ خیریت و عافیت پتا کرنے کا سلسلہ جاری ھے۔
اس سارے کھیل میں وی لاگرز کا اپنی اپنی اطراف کے لئے افواہ سازی کا سلسلہ جاری ھے۔ اب صرف ” تم ” اور ” میں ” کی جنگ ھے۔ کوئی بھی کچھ نھی چھپا رھا ۔ سب کچھ جوں کا توں ھم تک پہنچ رھا ھے۔ جزبات ، الفاظ پر حاوی نظر آرھے ہیں۔ عمران خاں کو اقتدار سے محروم کرنے یا یوں کہیں کہ جمھوریت کی بحالی کی جدو جہد کا آغاز تو خاں صاحب کے وزیر اعظم بننے کے بعد ھی کر دیا گیا تھا لیکن اس میں شدت اس وقت آئی جب میاں صاحب بخیر و عافیت لندن پہنچ گئے۔ اسٹیبلشمنٹ پر الزام تراشیوں سے ھوتا ھوا جدوجہد کا یہ سفر ووٹ کو عزت دیتا ھوا اب اپنے منتقی انجام کو پہنچنے کے قریب ھے۔ درمیان میں “آر یا پار “کا مرحلہ بھی آیا- لیکن اب سیاست کے تمام مضبوط ستون ایک ھی نقطے پر اکٹھےھو چکے ہیں ، صرف نتیجے کا انتظار ھے کہ فتح حق کی ھو گی یا ووٹ کو عزت کی۔
سیاست کا جال ھمیشہ مخالفت کے گرد بنا جاتا ھے۔ طاقت کے کھیل میں نفرت کو محبت پر فوقیت حاصل ھے۔طاقت کے حصول کے لئے ھمیشہ ایک سے زیادہ کردار میدان میں ھوتے ہیں ۔ لہزا کامیاب ھونے کے لئے دوسرے امیدواروں کے خلاف نفرت کو ابھار کر ایک مخصوص گروپ کی حمایت حاصل کئے بغیر کامیابی ممکن نھی ھوتی۔ نون لیگ نے اسی پالیسی پر عمل کیا۔ لیکن آخر راؤنڈ میں خان مقبولیت کا راؤنڈ جیت گیا- عمران خاں جو سیاست سے ھمیشہ کے لئے غائب ھوتا نظر آ رھا تھا اب ایک مضبوط سیاسی دھڑے کے پاکستان کی سیاست میں موجود رھے گا اور یھیں سے پاکستان کی مثبت سیاست یا عوامی مفاد کی سیاست کا آغاز ھو گا۔
موجودہ رشہ کشی میرے نزدیک پاکستان کی بہتری کی طرف ایک قدم ھے۔ سیاست میں نقطہ نظر میں فرق یا اقتدار کیلئے کوشش کوئی بری بات نھیں۔ مضبوط سیاسی مقابلہ دراصل ملک کی بقا ھے۔
ملک اور عوام کو مشکلات کے حل کے لئے نیب نھیں مضبوط سیاسی مخالفت کا ھونا ضروری ھے۔ اب یہ کمی پوری ھوتی نظر آ رھی ھے۔ ھمیں امید رکھنی چاھیے کہ پاکستان مضبوط سے مضبوط ھو گا یہ سیاسی رشہ کشی معمول کا عمل ھے۔