ربط


تحریر؛ ڈاکٹر عتیق الرحمان
یہ دنیا causal hypothesis ہے- یعنی نیوٹن کا تیسرا قانون – جو کرو گے وہ بھرو گے- “یعنی آگ جلے گی تو چائے بنے گی، محنت کرو گے تو کامیاب ہو گے، نشہ کرو گے تو تباہ ہو جاؤ گے” وغیرہ وغیرہ- پاکستان بہتر ھو گا اگر ہم سب حصہ ڈالیں گے تو- پاکستان مشرق یا مغرب سے چلنے والی ھواؤں یا بارشوں سے ٹھیک نہی ھو گا- مینار پاکستان یا ڈی چوک پر جلسوں یا ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے بھی نہیں ٹھیک ھو گا- ھیش ٹیگ بنانے سے تو بلکل بھی نہیں ھو گا-
ایک مہذب معاشرہ ہی مضبوط ریاست کی بنیاد بنتاہے- اور مضبوط ریاست ایک دیانتدار اور فرض شناس حکومت کو جنم دیتی ہے – مہذب معاشرہ، مضبوط ریاست اور فرض شناس حکومت کے درمیان ایک ربط ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق اور انصاف کی فراھمی کو یقینی بناتاہے- غیر مہذب ،بکھرے ھوئے، الجھے ھوئے معاشرے کی ریاست اور حکومت سے مضبوط معیشت ، بنیادی انسانی حقوق ، انصاف طلب کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے-
” مجرموں کو کیفیکردار تک پہنچا کر دم لیں گے”،” دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی جو واقعے کی تحقیق کرے گی”، ” وزیر اعلی نے واقعے کا سخت نوٹس لے لیا ھے اور مجرموں کی جلد گرفتاری کی ھدایت کی ھے”، ” بصد احترام ، مجھے آپ سے اختلاف ہے”، ” میرا ان سے نظریاتی اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن گرفتاری کی مذمت کرتا ھوں”، یہ سب مہمل فقرے ہیں- یہ آپ اپنے آپ کو دھوکہ دے رھے ہیں، یہ کہیں پہنچ نہی رھے-

ھمارے ایک استاد تھے , ان کا کہنا تھا کہ اچھوتی تحریر الفاظ اور پیراگراف کا ربط ھوتی ہے-
اچھی موسیقی بھی ربط ہے- ہر تان کا دوسری تان سے ملاپ سرُ بناتا ہے- بے ربط موسیقی کانوں کا عذاب ہے-
ہم بے سرے راگ الاپ رھے ہیں- ہماری حرکات اور توقعات میں ربط نہی ھے- ہم ایک دوسرے کو گالیاں دے کر اخلاق سکھا رھے ہیں، طنز کر کے اچھائی کی طرف راغب کر رھے ہیں، جھوٹ بول کر سچائی کی ترغیب دے رھے ہیں، حرام کما کر حلال دکھا رھے ہیں، ٹریفک کے سگنل اور ون وے توڑ کر بحفاظت منزل پرپہنچنا چاہ رھے ہیں- ہم سب کچھ الٹا کر کے سیدھے کی توقع کر رھے ہیں- ھمیں صرف ایک کام کرنا ہے اپنی حرکات، سوچ اور نتائج کی توقع میں ربط پیدا کرنا ھے- independent variable ٹھیک ھو گیا تو dependent variable, خود بخود ٹھیک ھو جائے گا- یہی قانون قدرت ہے-
۰-۰-

Visited 1 times, 1 visit(s) today

You might be interested in