روزگار کے یکساں مواقع
سید انیس ایک ابھرتے ھوئے صحافی اور وی لاگر ہیں – چند ھفتے پہلے ھی ان سے ملاقات ھوئی- ابھی چند ماہ قبل ھی بی ایس کمیونیکیشن کیا اور ڈگری مکمل ھونے سے پہلے ہی اپنا یو ٹیوب چینل شروع کر چکے تھے- روز کچھ نیا کرنے کی کوشش کر کے اپنے آپ کومنوا رھے ہیں -مجھے ھنر مند اور محنت کرنے والے نوجوان بہت اچھے لگتے ہیں – یہ افسر بننے کی تمنا لے کر تعلیم حاصل نھی کرتے بلکہ کامیاب زندگی گزارنے کیلئے جدو جہد کرتے ہیں- اسی طرح کے اور بہت سے ھنر مند اور باحوصلہ نوجوان ہیں جو کہ پاکستان کے خوشحال مستقبل کی ضمانت ہیں- پاکستان میں غربت کی ایک بڑی وجہ ہنر کی کمی ہے- ھمارے پڑھے لکھے نوجوان سرکاری ملازمت کی تلاش میں عمر گنوا دیتے ہیں- چھوٹے کاروبار کو وہ اپنی ڈگری کی توہین سمجھتے ہیں اور اسطرح بے روزگاری بڑھتی رہتی ہے- ھمیں اپنے نوجوانوں کو چھوٹے کاروبار سے زندگی شروع کرنے کی ترغیب دینی چاہیے- کوئی بھی ڈگری افسر شاہی کے لئے نہیں بلکہ ذہنی شعور کے لئے ہوتی ہے اور کام کوئی بھی چھوٹا یا بڑا نھی ہوتا-
آج کل سیاسی جلسوں میں ہزاروں لوگوں کی شمولیت سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بے روزگاری کس انتہا کو پہنچی ہوئی ہے- اسی طرح انٹر نیٹ کا بے جا استعمال بھی اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ عوام کی اکثریت فارغ ہے-
اجکل ڈیجیٹل ترقی کا دور دورہ ہے- ہر انسان کو ترقی کے لئے یکساں مواقع میسر ہیں- بھارت ، بنگلہ دیش میں گھر بیٹھے نوجوان لاکھوں روپیہ کما رھے ہیں- آپ کسی عالمی ڈیجیٹل کانفرنس میں جائیں تو آپ کو ہر طرف پچیس ، تیس تیس سال کے میلینرز ( لکھ پتی) گھومتے ہوئے ملیں گے- ھمارے ہاں نوجوان سرکاری نوکری کی تلاش میں گھوم رہے ہوتے ہیں- ھمیں کچھ بھی نھی کرنا ، صرف ایک چھوٹی سی عادت تبدیل کرنی ہے؛ موبائل اور لیپ ٹاپ کو غلط استعمال سے روک کر تعمیری استعمال کی طرف لے جانا ہے، اور بس- ڈیجیٹل ورلڈ میں نوٹ واقعی اوپر سے برستے ہیں – کوشش کر کے دیکھیں کمپیوٹر سکھنا بہت ہی آسان ہے-
وہ قومیں کبھی غربت کی لکیر سے اوپر نھیں آ سکتیں جہاں حکمرانی چند گروہوں یاافراد تک محدود رہے- آزادی کے بعد پاکستان پر جاگیردار گھرانوں کی حکومت تھی تو اب اشرافیہ کی اجارہ داری ہے- پاکستان کی بدحال معیشت کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے کہ سیاسی طاقت محدود لوگوں کے چنگل سے باہر نھیں نکل پائی –
بہتر معیشت اور غربت پر قابو پانے کے لیے حکمرانی کے اختیار کو وسیع کرنا پڑے گا-
1688 کے انقلاب نے بر طانیہ کو اپنی سیاست تبدیل کرنے کا موقع دیا اور اس کے بعد دنیا نے برطانیہ کا عروج دیکھا اور آج بھی یرطانیہ دنیا کے چند خوشحال ممالک کی صف میں پہلے نمبروں میں کھڑا ہے- بر طانیہ کی خوش قسمتی کہ جب برطانوی راج سکڑ رھا تھا تو ونسٹن چر چل اور مارگریٹ تھیچر نے اس ملک میں حکومت کی-
امریکہ میں جمہوریت نے معاشی اداروں کو بہت مستحکم کر رکھا ہے اور یھی وجہ ہے کہ امریکہ آج دنیا کی نمبر ون اکانومی ہے- امریکہ پر ٹرمپ کی حکمرانی ھو یا جو بائیڈن کی ان کو کوئی خاص فرق نھیں پڑتا کیونکہ ان کے ادارے ملک چلا رہے ہیں-
جرمنی میں ادارے بہت مضبوط ہیں اور عام آدمی کا طرز زندگی بہت اعلی ہے- جرمنی کی بھی خوش قسمتی کہ انجیلا مرکل ان کی حکمران رہیں-
آسٹریلیا، برازیل، جاپان، چین بہت خوشحال ملک ہیں کیونکہ وہاں معیشت کے ثمرات عام آدمی تک منتقل ہوتے ہیں- اور ان تمام ممالک نے صرف اس وقت ترقی کی جب ان کی سیاست صرف اداروں کو محفوظ کرنے عوام کو خوش حال کرنے کی طرف متوجہ ہوئی-
بھارت میں دہلی کے وزیر اعلی کیجریوال نے حکومت کرنے کے نئے انداز کو متعارف کروایا ہے- بے غرض حکمرانی کی اعلی روایت قائم کر رھے ہیں – تعلیم کے یکساں مواقع اور صحت کی سہولتیں ان کی حکومت کی ترجیحات ہیں –
ریاستوں کوغربت کے خاتمے اور ترقی کے لئے معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اشرافیہ کی جگہ اشرافیہ حکومت کرنے آئے گی تو تبدیلی نہیں آ سکتی- معاشی اداروں کی طرف سے دے جانے والی مراعات ،امیر اور غریب ممالک میں معاشی خوشحالی میں فرق کی بنیادی وجہ ہیں۔