سمجھ بوجھ کی کتھا
تحریر:عتیق الرحمان
انسانی ذہن مشاھدہ، مطالعہ کے ارد گردپروگرام کیا گیا ہے-ہم جو پڑھتے ہیں جو دیکھتے، سنتے ہیں وہ ہمارے لاشعور اور تحت اشعور میں کہیں جا کر پیوست ہو جاتا ہے اور اسی علم اور مشاھدے سے ہمارے رویے جنم لیتے ہیں -علم کا حصول اور معلومات کا خزانہ انسانی ذہن کو جلا بخشتے جائیں گے اور ساتھ ہی تخیل پرواز بہت بلند ہوتی چلی جائے گی – محدود مطالعہ اور مشاھدہ ایک محدود سوچ اور یک طرفہ نقطہ نظر کو جنم دیتا ہے- اگر انسان اپنے تجزے کو خوف یا لالچ سے جوڑ دے تو تجزیہ ممکنہ حد تک بیکار ہو جاتا ہے-ھمارے ارد گرد کا ماحول ہمارا سب سے بڑا سکول ہوتا ہے- آہستہ آہستہ انسان کا پیشہ اس کی عادات اور سوچ پر حاوی ہو جاتا ہے- جیسا کہ وکیل اچھے دلائل دینے کی استطاعت رکھتا ہے، استاد اخلاقیات اور درس کے قریب ھوتے ہیں، ڈاکٹر شفا اور ھمدردی سے جڑا ہوا ہوتا ہے، پولیس مین میں کھوج لگانے کی حس زیادہ ہو گی، تاجر کی سوچ نفع و نقصان کے تابع ہو گی، سرکاری ملازم حکم بجا لانے کا عادی ہوتا ہے، سیاست دان البتہ چشم کشا صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں- کیسے بھی حالات ہوں سیاستدان کا نقطہ نظر گھمانے پھرانے والا ہی ہو گا- حکمرانی طاقت کا کھیل ہے- حکمران دل سےنہیں پالیسیز کے تحت سوچتے ہیں-
بڑے بڑے سیاسی فلسفے، انسانی حقوق کے نعرے مارے والی تنظیمیں ، کاروباری حضرات تماشہ گر اور مداری گر انسان کے محدود علم اور مشاہدے کا فائدہ اٹھاتے ہیں -آپ خود دیکھ لیں، ریڑھی پر بک رھا ہو تو نان کباب، مکڈونلڈ سے لیں تو میک عریبین، ڈھابے سے لیں تو مغز اور ریسٹورنٹ میں کھائیں تو برین مسالا- صرف نام کی تبدیلی اور بیچنے کی جگہ بدلنے سے گاہگ کا نقطہ نظر بدل کر زیادہ پیسے کمائے جا سکتے ہیں- برانڈڈ کمپنیاں وہی سامان جو عام مارکیٹ میں سستا بکتا ہے اسے اپنے نام سے جوڑ کر مہنگا بھیجتی ہیں – اعلی سطحی حکومتی یا ، سرکاری عہدے پر براجمان ہو کر عوام کا استحصال کرتے چلے جائیں تو ریاستی مفاد- ورنہ قانونی جرم-
مابائل اور انٹر نیٹ کے دور میں ہماری سوچ پر حاوی ہونے کے لئے یہی حربے استعمال کئے جا رہے ہیں- اپنی معلومات اور علم کو بہتر کریں تاکہ کوئی ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے- ہر آواز جو آپ کے کانوں تک پہنچ رہی ہے وہ سچ نہیں، جو دکھایا جا رھا ہے وہ ایڈٹ کیا گیا ہے-
۰-۰-۰-۰