سی پیک: مشترکہ تعاون کمیٹی (جے سی سی) کا جائزہ اجلاس
تحریر: عابد خان
وقت گزرنے کے باوجود چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی کرشماتی کشش کم نہیں ہوئی اور مختلف چیلنجوں کے باوجود اپنی درست سمت برقرار رکھے منزل کی طرف روادواں ہے۔ سی پیک چین کے بین الاقوامی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا پائلٹ پروجیکٹ ہے جو چین میں سنکیانگ کے شہر کاشغر سے شروع ہوکر خنجراب پاس اور متعدد دیگر علاقوں کے راستے پاکستان کے جنوبی ساحلی شہروں کراچی اور گوادر تک پہنچاتا ہے یہ اقتصادی اور ترقیاتی منصوبہ، چین اور پاکستان کے اقتصادی تعلقات کومستحکم کرنے اور دوستانہ تعاون کو فروغ دینے کے لئے دونوں ممالک کی مشترکہ منزل مقصود ہے۔ یہ اہم راہداری جن شہروں سے گزرتی ہے ان میں کاشغر ، آتوشی ، تمشوق ، شُول ، شفو ، اکٹو ، تاشکورگن تاجک ، گلگت ، پشاور ، ڈیرہ اسماعیل خان ، اسلام آباد ، لاہور ، ملتان ، کوئٹہ ، سکھر ، حیدرآباد ، کراچی اور گوادر شامل ہیں۔ یہ راہداری علاقائی رابطوں کا ایک فریم ورک اور امن کے ساتھ ترقی کی بنیاد رکھتے ہوئے معاشی علاقائزیشن کی طرف سفر ہے۔
سی پیک کے 7 بنیادی اور اہم پہلووں میں ، رابطہ، توانائی ،تجارت اور صنعتی پارکس، زرعی ترقی اور غربت کا خاتمہ، سیاحت، لوگوں فلاح وبہبود اور مالی تعاون شامل ہیں۔ اور سی پیک کے تحت 10 مشترکہ ورکنگ گروپس (جے ڈبلیو جی) ہیں جن میں منصوبہ بندی ، توانائی ، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ، گوادر ، صنعتی تعاون ، سیکیورٹی ، بین الاقوامی تعاون ، سماجی اور معاشی ترقی ، زرعی تعاون ، سائنس اور ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ ان گروپس میں دونوں ممالک کے مطلقہ ماہرین شامل ہوتے ہیں،
مشترکہ تعاون کمیٹی میٹنگ سی پیک کا سب سے بڑا اور اہم فورم ہے جس کی صدارت پاکستان کی طرف سے وزرات منصوبہ بندی اور چین کا قومی ترقی اور اصلاحی کمیشن مشترکہ طور پر کرتے ہیں ۔ اس میٹنگ میں مشترکہ ورکنگ گروپس (جے ڈبلیو جی) کی شفارشات پر گزشتہ سال کی کارگردگی اور آنے والے سال کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اب تک سی پیک کی 9 مشترکہ تعاون کمیٹی (جےسی سی) میٹنگز ہو چکی ہیں ۔ جبکہ 10 ویں میٹنگ ہونے جا رہی ہے ۔ سی پیک منصوبہ نے 9 ویں جے سی سی کے بعد غیر معمولی پیشرفت کی ہے ۔
انفرا سٹرکچر کے منصوبوں میں سے بیشتر منصوبے کورونا جیسی وبائی مرض کے باوجود کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچے، جس میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ ،ملتان سکھر موٹر وے فیز ٹو جو 392 کلومیٹر لمباہے اور اس کے علاوہ شاہراہ قراقرم جو حویلیاں سے مانسہرہ اور مانسہرہ سے تھاکوٹ جس کی لمبائی120 کلومیٹر ، شامل ہیں ۔ مزید یہ کہ گوادر بندرگاہ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے جوڑنے کے لئے ایسٹ بے ایکسپریس وے جو 19 کلو میٹر لمبائی پر مشتمل ہے اس ایکسپریس وے پر تین مزید تین پل تعمیر کرنے کی سمری دی گئی ہےاس کے علاوہ وہ ماہی گیر جو ایسٹ بی ایکسپریس وے کی تعمیر سے متاثر ہوئے ان کی سہولت کے لئے (جی ڈی اے )ایک 1.7 کلومیٹر بریک واٹر تعمیر کرے گا۔ اسی کے ساتھ متعدد دوسرے منصوبے شروع کیے گئے جس میں (ایم ایٹ) موٹر وے ہوشاب آواران سیکشن جس کی لمبائی146کلو میٹر ہے اور 230 ملین امریکی ڈالر مالیت کا نیو گوادر انٹر نیشنل ائیرپورٹ کا منصوبہ جس کا سنگ بنیاد مارچ 2019 میں وزیر اعظم نے رکھا تھا اس پر سول ورک کا آغاز ہو چکا ہے۔اور مین لائن ون (ایم ایل ون ) کے اسٹریٹجک منصوبے کے پی سی۔ ون کی منظوری دے دی گئی۔ مزید برآں ، سکھر حیدرآباد موٹر وے (ایم سکس )کے پی سی۔ ون کو بھی منظور کیا گیا۔
توانائی کے بحران سے نمٹنے میں سی پیک منصوبوں کا بڑا اور اہم کردار ہے یہ منصوبے قومی گرڈ میں تقریبا 17،045 میگاواٹ کا اضافہ کریں گیں۔ توانائی کے منصوبوں میں سے 5،320 میگاواٹ کے 9منصوبے جن کی ٹوٹل مالیت 899 ,7 ملین امریکی ڈالر بنتی ہے مکمل ہو چکے ہیں ان میں پنجاب کے منصوبوں میں 1،320 میگاواٹ کا ساہیوال کول پاور منصوبہ جس کی مالیت 1،912.2 ملین امر یکی ڈالر، 400 میگاواٹ قائداعظم سولر پارک جس کی مالیت 520 ملین ڈالر شامل ہیں اسی طرح سے سندھ کے منصوبوں میں 320 ,1میگاواٹ پورٹ قاسم کول پاور جس کی مالیت 912.2 ,1 ملین ڈالر, 660 میگاواٹ اینگرو تھر پاور اینڈ مائن جس کی مالیت 995.40 ملین ڈالر،50 میگاواٹ ہائیڈرو چین دائود ونڈ جس کی مالیت 113 ملین ، 100 میگاواٹ یو ای پی ونڈ فارم جس کی مالیت 250 ملین ڈالر، 50 میگاواٹ سچل ونڈ فارم جس کی مالیت 134 ملین ڈالر،100 میگاواٹ تھری گارج ونڈ پاور جس کی مالیت 150ملین ڈالر بنتی ہے شامل ہیں اسی طرح سے بلوچستان میں بھی توانائی کا 320 ,1میگاواٹ چائنا – حب کول پاور منصوبہ جس کی مالیت 1،912.2 ملین ڈالرہے سی پیک کے تحت توانائی کے مکمل ہونے والے منصوبوں میں شامل ہے۔ سی پیک کے تحت توانائی کے زیر تعمیر منصوبوں میں 470 ,4میگاواٹ کے ،550 ,9 ملین امریکی ڈالر کے 8 منصوبے شامل ہے جن میں سے بلوچستان میں 300 میگاواٹ گوادر کوئل منصوبہ جس کی مالیت 542.32 ملین ڈالر ہے 2023 میں مکمل ہو گا، سندھ میں 1320 میگاواٹ کا شنگھائی الیکٹرک (ٹی سی بی۔ون) جس کی مالیت 1،912.2 ملین ڈالر بنتی 2021 میں مکمل ہو جائے گا، 330 میگاواٹ حبکو تھر بجلی جس کی مالیت 497.70 ملین ڈالر ہے سندھ میں واقع ہے اور یہ بھی 2021 میں مکمل ہو جائے گا، 330 میگاواٹ تھل نووا تھر بجلی جس کی مالیت بھی 497.70 ملین ڈالر ہے یہ بھی سندھ میں ہے اور 2021 میں مکمل ہو جائے گا، پنجاب ، آزاد جمعوں و کشمیر کا 720 میگاواٹ کیروٹ (ایچ پی پی) جس کی مالیت 1698 ملین ڈالر بنتی 2021 میں مکمل ہو جائے گا، 884 میگاواٹ سوکی کناری (ایچ پی پی) جن کی مالیت 1،962.667 ملین ڈالر بنتی یہ منصوبہ خیبرپختونخواں میں واقع ہے اور 2022 میں مکمل ہو گا، 600 میگاواٹ قائداعظم سولر پارک جس کی مالیت 781 ملین ڈالر ہے پنجاب کا یہ منصوبہ 2024 میں مکمل ہو گا اور 1،658.34 مالیت کا ایچ وی ڈی سی + 660 کے وی مٹیاری ، لاہور ٹی لائن منصوبہ جو پنجاب اور سندھ کا مشترکہ منصوبہ ہے وہ اسی سال مکمل ہو جائے گا۔ جو 5 منصوبے پائپ لائن میں ہیں وہ 3،244 میگاواٹ اور 1620 ملین امریکی ڈالر مالیت کے ہونگیں ان میں سندھ میں 1،320 میگاواٹ تھر (اوریکل) کوئلہ پلانٹ منصوبہ جس کی مالیت تقریبا 1،912.2 ملین امریکی ڈالر ہو گی اس کی ٹائم لائن سال 2026 ہوگی، آزاد جمعوں و کشمیر میں 1،124 میگاواٹ کوہالا (ایچ پی پی) جس کی مالیت 408 ,2 ملین ڈالر ہوگی اور ٹائم لائن 2027 ہے، اسی طرح سے پنجاب اور آزاد جمعوں و کشمیر کا مشترکہ منصوبہ 700.7 میگاواٹ آزاد پتن ایچ پی پی جس کی مالیت 1،650 ڈالر ہے 2026 میں مکمل ہو گا، سند ھ کے دو منصوبے 75 ملین ڈالر کا 50 میگاواٹ کاچو ونڈ پاور پروجیکٹ اور 50 میگاواٹ ویسٹرن انرجی (پرائیویٹ) لمیٹڈ جس کی مالیت بھی 75 ملین ڈالر بنتی ہے دونوں منصوبے سال 2023 میں مکمل ہوگیں۔
گوادر پورٹ اور فری زون پر مزید کام ہو رہے ہیں جیساکہ فری زون کے لیے پالیسی جاری کی گئی ہے جس کے تحت سرمایہ کاروں کو 42 لائسنس جاری کر دئے گئے ہیں اور صوبائی ٹیکس سے گوادر پورٹ کو چھوٹ دی گئی ہے تاکہ سرمایہ کار کو مزید فائدہ دیا جائے ۔ گوادر فری زون فیز 2 کے لئے زمین خالی کرائی گئی ہے۔ بندرگاہ کے مکمل تجارتی عمل اور درمیانے اور بڑے جہازوں کی حفاظت اور سہولت کو یقینی بنانے کے لئے گوادر بندرگاہ پر بریک واٹر تعمیر کرنے کے لئے چینلز کھودنا ضروری ہیں اور چائنہ اور پاکستان نے گزشتہ (جے سی سی ) میں اس پر رضامندی ظاہر کر چکے ہیں دونوں فریقین نے اس پر مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈیز کرنے اور پی سی ٹو تشکیل دینے پر اتفاق بھی کیا اورجون 2020 میں بریک واٹر کی تعمیر کے لئے مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی مکمل ہوچکی ہے اور پی سی ون پروسیسنگ کے مراحل میں ہے۔ دوسرے منصوبوں کے ساتھ ساتھ عوام کی فلا ح بہبود کے منصوبوں کو بھی ترجیہات میں شامل کیا گیا ہے، پاک چین دوستی ہسپتال بھی ان منصوبوں میں سے ایک ہے جس کا سنگ بنیاد 16 دسمبر 2019 کو رکھا گیا۔اور فروری 2020 سے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ تعلیم اور وہ بھی ٹیکنیکل بنیادوں پر تعلیم دور حاضر کی اہم ضرورت سمجھا جاتا ہے اس بات کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گوادر میں پاک چین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کی بنیاد بھی 16 دسمبر 2019 کو رکھا رکھی گئی اور ابھی تک کافی پیشرفت ہو چکی اور امید کی جارہی ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل 31 دسمبر 2021 تک ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ پینے کے صاف پانی کا ایک منصوبہ 1.2 (ایم جی ڈی)واٹر صاف کرنے کا پلانٹ پر بھی کام ہو رہا ہے۔ گوادر شہر کی فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے پاک فوج کے تعاون سے آفس کمشنر مکران ڈویژن کے تحت پی ایس ڈی پی پر مبنی ایک پروجیکٹ گوادر سیف سٹی پراجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے۔ اور پروجیکٹس سائٹس پر بھی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا رہا ہے اس کت ساتھ چین سے آنے والوں کے لئے ویزہ کی رسائی کو آسان بنانے پر بھی غوروفکر کیا جا رہا ہے مزید یہ کہ گوادر کے اسمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کو حتمی شکل دے دی گئی اور اس کی منظوری بھی مل گئی ہے۔ گوادر میں پاکستان اور چین کے درمیان تعاون اب تکنیکی اور بنیادی ڈھانچے سے بالاتر ہے اور تعلقات اب پہلے سے زیادہ سماجی اور جذباتی ہیں۔ چینی ترقیاتی شعبے کی فرمیں جدید ترین اسپتال ، اسکول اور رہائش اور ٹیلی مواصلات کے نیٹ ورک بنارہی ہیں اور یہ پورے شہر میں بڑے پیمانے پر ترقی ہے۔ موٹر ویز گوادر کو تمام اہم شہروں سے جوڑ رہی ہے۔ گوادر سے ٹرین کی لائنز پر بھی کام ہو رہاہے ، پانی صاف کرنے والے پلانٹ پر کام ہو رہاہے اور نئے سرمایہ کاروں کو راغب بھی کیا جا رہاہے ۔ اسی طرح گوادر خصوصی اقتصادی زونز مینوفیکچرنگ کی نئی سہولیات کا محفوظ ٹھکانہ ہیں۔ بڑے کاروبار اور سرمایہ کار ٹیکس سے پاک مراعات کی پیش کش میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ گوادر میں ایکسپورٹ سیکٹر پر بھی کام ہو رہا ہے گارمنٹس اور فوڈ ایکسپورٹرز گوادر کو ان کی سپلائی چین کا مین پوانٹ بنانے پر غور کررہے ہیں۔ جیساکہ بین الاقوامی ماہرین کا بھی اس حقیقت پر اتفاق رائے ہے کہ صرف پائیدار ترقی ہی حقیقی ترقی ہے اور عام آدمی کو شامل کیے بغیر حقیقی ترقی ممکن نہیں ہے۔ اس لئے گوادر میں بڑے پیمانے پر سہولیات کی فراہمی میں ، مقامی آبادی کو اہم اہمیت دی جا رہی ہے اور مقامی لوگوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ تاکہ ان میں احساسں محرومی نہ آئے۔ گوادر نہ صرف ایشیاء کا جدید ترین بنے گا بلکہ بلوچستان کی عوام کے لئے ایک امید ، کامیابی اور خوشی کا زریعہ بنے گا اس تناظر میں ، ایس ایم ای سیکٹر کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور تکنیکی تربیتی پروگراموں کو شروع کیا جارہا ہے۔ غیر ہنر مند مزدور کو نیم ہنر مند اور مکمل طور پر قابل لیبر میں تبدیل کیا جارہا ہے جو پیچیدہ صنعتی یونٹوں میں ملازمت اختیار کرسکیں گئیں ۔ چین، ایران ، مشرقی وسطی کی ریاستیں ، وسطی ایشیائی ممالک اور بہت سے دوسرے ممالک گوادر میں دلچسپی لے رہیں ہیں۔ انشاللہ اس شہر کا مستقبل خاص طور پر بلوچستان کے عوام کے لئے ایک مساوی جیت کی صورت میں ہوگا۔
سپیشل اکنامک زونز کو صنعتی شعبہ کے مرکزی کردار کے پیش نظر سی پیک منصوبے میں شامل کیا گیا ہے پاکستان میں 9 سپیشل اکنامک زون قائم کیے جائیں گے جن میں فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی سپیشل اکنامک زون کی گرائونڈ بریکنگ کی جا چکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں رشکئی سپیشل اکنامک زون کے لیے جگہ خریدی جا چکی اور ترقیاتی معاہدے پر چینی ڈویلپر (چائنہ روڈ اینڈ برج کنسٹرکشن کمپنی) کے ساتھ دستخط ہو چک ہیں۔سندھ میں دابھے جی جو ایک بڑا سپیشل اکنامک زون ہے وہ بھی ٹینڈر کے مراحل میں ہے۔
نئے منصوبے شروع کرنے پر بھی غوروفکر جاری ہے اس لئے دونوں ممالک کے مابین طے شدہ منصوبوں کے علاوہ دیگر راہیں بھی کھولی جارہی ہیں جن میں زراعت ، سائنس اور ٹیکنالوجی اور سیاحت جیسے طویل مدتی منصوبے شا مل ہیں ۔ جیسا کہ پاکستان ایک زراعت پر مبنی معیشت ہےاس لیے صنعتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو ڈھیر سارے خام مال مہیا کرتی ہے۔ لہذا زراعت پاکستان کی بقا اور نشوونما کے لئے ناگزیر ہے اور اب سی پیک کے تحت ، چین کے تعاون سے ہمارے موجودہ زرعی نظام میں بہتری آئے گی۔ زراعت میں چین کو مکمل طور پر شامل کرنے کے لئے ، جوائنٹ ورکنگ گروپ بھی بنا یا گیا اور پہلی میٹینگ بھی ہو گئی ہے اور ایک ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے اس منصوبے کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے سے نہ صرف زراعت بلکہ اس سے منسلک مختلف صنعتوں کے لئے لامحدود معاشی و اقتصادی فوائد حاصل ہونگے۔ پاکستان اور چین کےماہرین کے مابین علم اور صنعت کی تکنیک کا مکمل تبادلہ بھی ایکشن پلان کا ایک اہم حصہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم آہنگی پیدا کی جائے اور ایک دوسرے کے زرعی آب و ہوا اور حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد زیادہ تکنیکی معلومات حاصل کی جائیں جس سے بیجوں کی تصدیق ، نگرانی اور مصنوعات کے معیار کو بہتر کرنے میں آسانی ہو گی۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) قائم کیا گیا ہے اور 32 تجاویز چائنہ کے ساتھ مشاورت کے مختلف مراحل میں ہیں۔
بے شک یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے ملک کا مستقبل جڑا ہوا ہے اور چھوٹے بڑے مختلف منصوبوں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سےعام عوام کے لئے اس میں ملازمت اور کاروبار کے بہت ذیادہ مواقع موجود ہیں ۔ ویسے تو سی پیک فریم ورک میں شامل اہم منصوبوں میں انفراسٹرکچر ،توانائی، صنعتی تعاون ، سماجی و اقتصادی ترقی، گوادر میں مختلف منصوبے، علاقی تعاون ، زراعت ، سانئس اینڈ ٹکیکنالوجی، اور سیاحت شامل ہیں لیکن اگر ان میں سے ابھی صرف انفراسٹرکچراور انرجی کو ہی دیکھ لیا جائے تو بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سی پیک میں عام عوام اور پاکستان کے لئے کتنے مواقع موجود ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک انفراسٹرکچر کے منصوبوں سے تقریبا 48,000 افراد کو نوکریاں مل چکی ہیں اور مسقبل میں لاکھوں افراد کو ملازمت کے مواقع ملیں گیں جیسے کہ ریلوے کا اسٹریٹجک منصوبہ مین لائن ون پشاور سے کراچی بہت اہم ہے یہ اینکر پروجیکٹ کا کام کرے گا جو پاکستان میں لاجسٹک انڈسٹری کو مزید ترقی دے گا یہ منصوبہ 9 سالوں میں مکمل ہو گا اور اندازے کے مطابق 150,000 نوکریاں پیدا ہونگیں اس طرح سے توانائی کے منصوبوں سے تقریبا 21 ہزار نوکریاں مل چکی ہیں اور اگلے پانچ سال میں اندازے کے مطابق 26 ہزار ملازمت کے مواقع ملیں گیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اگر انفراسٹریکچر اور انرجی کے منصوبے جو مکمل ہو چکے ان سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا ہے اور جن منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ان سے بھی مزید لاکھوں افراد کو نوکرایاں ملیں گی تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو مستقبل میں مکمل ہونے والے دوسرے منصوبے ہیں ان سے بھی نہ صرف ملازمت بلکہ کاروبار کے بھی بہت زیادہ مواقع پیدا ہونگیں۔
یہ بات عیاں ہے کہ سی پیک سے متعلقہ تمام منصوبوں پر طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق کام ہو رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں کورونا وائرس کی وجہ دنیا میں سب کچھ تھم سا گیا تھا اس کے باوجود اگر سی پیک سے متعلقہ منصوبے چلتے رہے تو یہ پاکستان اور چائنہ دونوں کے لئے خوش آنئد بات ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین نے پاکستان میں سی پیک کے تحت اب نئی سرمایہ کاری کی ہے اور سال 2020ء میں یہ سرمایہ کاری 11بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی یہ 2015کے بعد چین کی دوسری بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اب دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے اس مرحلے میں صنعتی تعاون سے متعلق بہتر منصوبوں اور زراعت کو فروغ دینے والے منصوبوں کی وجہ سے پہلے مرحلے سے بھی زیادہ وسیع تر اور نمایاں اثرات مرتب ہونگیں ۔ دیکھا جائے تو ہر شعبۂ زندگی کسی نہ کسی طرح سی پیک سے منسلک ہے اس لئے اگر کہا جائے کہ “سی پیک سب کے لئے” تو اس منصوبے کے وژن کی بہتر عکاسی ہو سکے گی۔ یہ ایک خالص ترقیاتی منصوبہ ہے جو نہ صرف چین اور پاکستان تک محدود ہے بلکہ پوررے خطے کے لئے ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ اس لئے پاکستان اور چین دونوں ہی سی پیک کے تمام منصوبوں کو وقت پر مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔