مہنگائی اور وجوہ: سچ کیا ہے؟

بہت سے دیگر مسائل کے علاوہ، آئی ایم ایف، نیپرا اور اوگرا، یہ تین بہن بھائی ہیں جو مل کر ہمیں تنگ کر رہے ہیں۔ ان کی بات ہم کیوں مانتے ہیں اور کیوں حکومت انکار نہیں کر پاتی؟ کبھی پٹرول کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں تو کبھی بجلی کی اور کبھی آئی ایم ایف کے کہنے پر نیا ٹیکس لگا دیتے ہیں۔ کیوں حکومت یہ سب کرنے کے لیے مجبور ہو جاتی ہے؟ کیا موجودہ حکومت کو عوام کو تنگ کر کے مزا آتا ہے؟ پچھلی حکومتیں ایسا کیوں نہیں کرتی تھیں ؟ آئیے مل کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ ہم عوام اس گورکھ دھندے کے سب سے بڑے متاثرین ہیں۔ دوسرا بڑا متاثر گروپ حکومت بذات خود ہے۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے کہ کتنا قصور عالمی اداروں کا ہے، کتنا یہ سیاسی واویلا ہے، کتنا حصہ اس میں موجودہ حکومت کی کارکرگی کا ہے اور کتنا حصہ اس میں ویلے بیٹھے یا کرائے کے سوشل میڈیا آپریٹرز کا ہے یا سرحد کے پار بیٹھے دشمن کا جو ان مسائل کو تیلی لگا کر ہم کو نیچا دکھانے کے درپے ہے؟ ہمیں اگر پتا چل جائے کہ سچ کیا ہے تو ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی کہ کس کو کس طرح آڑے ہاتھوں لینا ہے؟ تو آئیے اپنی آسانی ڈھونڈتے ہیں ۔

سچ جاننا عوام کا بنیادی حق ہے۔ جس دور میں ہم زندہ ہیں اس کی سب سے بڑی زیادتی ہمارے ساتھ یہ ہے کہ ہم سے نہ صرف سچ چھپایا جاتا ہے بلکہ ہمیں ایسا جھوٹ دکھایا جاتا ہے جس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا اور اسے سچ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ شاید وہ ’ٹرک کی بتی والا‘ محاورہ انہی حالات کے لیے کسی نے بنایا تھا۔ یہ جھوٹ کوئی ایک مخصوص شخص، گروہ یا طبقہ نہیں بولتا بلکہ یہ موجودہ دور کا المیہ ہے۔ اسے مابعد سچائی کے زمانے (post truth era) کا المیہ کہنا چاہیے۔ جہاں سچ کوچھپا کر یا جھوٹ کو سچ بنا کر جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔ ہمیں جذباتی کرنے کے لیے انٹر نیٹ بنیادی کردار کرتا ہے۔ انٹر نیٹ تقریباً اندھا ہے جسے ہم اندھے بھینسے سے بھی تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اسے پتا نہیں چلتا کہ کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ۔ وہ صرف پیغامات کو پھیلاتا ہے۔ جیسے اندھا بھینسا ادھر ادھر تباہی مچاتا ہے بالکل اسی طرح انٹر نیٹ ادھر ادھر انتشار پھیلاتا ہے۔ اس لیے ہمیں خود اپنے آپ کو آگاہی دلانا ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنے مادی حقوق یعنی جائیداد وغیرہ کے لیے جنگ کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم اپنے سچ کے حق کو دوسروں پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمیں سچ تلاش کرنا ہوگا۔ اگر ہم سچ تلاش نہ کر سکے تو یہ اندھا بھینسا ہمیں تباہ کر دے گا۔

آئی ایم ایف یا عالمی مالیاتی ادارے کیا اور کیوں کرتے ہیں؟ کچھ سال پہلے ایک کتاب آئی تھی Confessions of an Economic Hit Man۔ اس کتاب کا خلاصہ یہ تھا کہ کہ عالمی مالیاتی ادارے پہلے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ غریب ممالک قرضے لیں ، پھر بڑے بڑے قرضے دے کر غریب ممالک کو قرضے کے بوجھ تلے دبا دیتے ہیں اور پھر یہی پیسہ بڑی بڑی مغربی کمپنیوں کو غریب ملکوں میں ٹھیکے دلوا کر واپس لے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا پاکستان کی مجبوری ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا، بائیسویں بار پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے۔ پاکستان کی پچھلی 61 سالہ تاریخ میں 22 بار پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے۔ 10 بار پیپلز پارٹی کے ادوار میں قرضہ لیا گیا۔ 4 بار نون لیگ کی حکومت میں اور 6 بار ملٹری ادوار کی حکومتوں نے قرض لیے۔ سو آئی ایم ایف سے قرض لینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سب امریکہ کے بغل بچے ہیں۔ اب امریکہ پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے جیسا کہ وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے، آئی ایم ایف کو استعمال کر رہا ہے اور پاکستان ان کی بات ماننے کے لیے مجبور ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے ایسا پہلے کیوں نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ سچ ہے جس کا جاننا عوام کے لیے ضروری ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہر دور میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ طریقہ مختلف ہو سکتا ہے۔ افراتفری کی شکل مختلف ہو سکتی ہے لیکن حکومتوں کی کارکردگی یکساں تھی بلکہ ابتر تھی۔ آج کم از کم کرپشن اور دہشت گردی کی گونج نہیں، جس پر قابو پایا جا چکا ہے۔ امریکی فوج کے افغانستان سے پر امن انخلاء کو موجودہ حکومت اور عسکری قیادت کو کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔ یہ خارجہ محاذ پر بہت بڑی کامیابی ہے۔

اب آتے ہیں مہنگائی کی طرف۔ کیپیٹل اکانومی میں اوپن مارکیٹ کا تصور متوسط طبقے کے لیے اچھی خبر نہیں۔ ہمارے ہاں تاجر برادری کی ہمیشہ اجارہ داری رہی ہے جو کہ ذخیرہ اندوزی اور مارکیٹ ڈیمانڈ سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ 2008ء سے لے کر 2018ء تک دہشت گردی اتنا بڑا مسئلہ تھی کہ عوام کی آنکھوں سے مہنگائی دور رکھی گئی۔ بہرحال، ہر آنے والے دن کے ساتھ اب مہنگائی شاید ایسے ہی بڑھتی رہے جب تک کہ حکومتیں مارکیٹ اکانومی اور ایکسپورٹ کے عمل میں توازن پیدا نہیں کرتیں۔ حکومت کا کام ان تمام عوامل و محرکات کو ریگولیٹ کرنا ہوتا ہے جو معیشت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت یہ کام اس طرح نہیں کر پائی جیسا کہ کرنا چاہیے تھا۔ اس کی دو وجوہ ہیں: ایک تو یہ کہ ان میں سے بہت سے عوامل بیرونی حالات کے پیدہ کردہ ہیں، دوسرا سیاسی افراتفری۔ حکومت کی توجہ نیب کے ذریعے سیاسی مخالفین کے احتساب پر رہی جس سے اکانومی سے فوکس ہٹ گیا اور اپوزیشن نے ہم خیال میڈیا اور مختلف سیاسی حیلوں بہانوں سے حکومت کی کارکردگی کے خدوخال کو متاثر کیا۔ حکومت اپنا ڈسکورس نہیں بنا سکی۔ ڈسکورس اس سارے عمل کو کہتے ہیں جوحکومت چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ گو کہ ایسا پچھلے ادوار میں بھی نہیں ہوا لیکن پی ٹی آئی کی حکومت اپنے منصوبے، سوچ اور عملداری میں ہم آہنگی نہیں حاصل کر سکی۔ اس کی وجہ حکومت کی نا اہلی نہیں بلکہ ناموافق سیاسی حالات اور بیرونی عوامل ہیں۔ ہاں البتہ حکومت ناموافق سیاسی حالات پر قابو پاسکتی تھی اگر نیب کو حرکت میں نہ لاتی تو۔ اوگرا اور نیپرا عالمی حالات اور اندرونی معیشت کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتے ہیں جس پر سیاسی حکومت اپنی پالیسی کے لحاظ فیصلہ صادر کرتی ہے۔

اب آتے ہیں پروپیگنڈا کی طرف۔ اس ساری صورتحال میں بھارتی پراپیگنڈا مشینری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انڈین کرونیکل نے بھارت کے بے بنیاد دعووں کی کلی کھول دی ہے۔ ہماری حکومت کی ہر کوشش جو بہتری کی طرف جاتی ہو بھارت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اچھال کر تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ گو کہ حکومت کی میڈیا مینجمنٹ میں خامیاں ہیں لیکن اپو زیشن تنقید برائے تنقید کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب وہ حکومت میں تھے تو پی ٹی آئی بھی یہی کرتی تھی۔ حالات متقاضی ہیں کہ حکومت معاشی اور سیاسی معاملات میں ہم آہنگی پیدا کرے، اپوزیشن سیاست کو ملکی مفاد سے تھوڑا علیحدہ کر کے دیکھے۔ سوشل میڈیا پر پڑھا لکھا طبقہ حالات کاصحیح ادراک کرے اور بھارتی پراپیگنڈا سے بچے۔ پاکستان کا مستقبل روشن ہے صرف حالات کا ادراک اور ہماری کاوشیں یکجا ہونی چاہئیں۔

Visited 2 times, 1 visit(s) today

You might be interested in