مہنگائی کیسے دوسرے مسائل کو جنم دیتی ہے؟
لاھور اور کراچی میں آشوب چشم پھیل رھا ہے- چند دن پہلے نزلہ و زکام کے وائرس نے حملہ کیا ہوا تھا- اس سے پہلے چکن پاکس پھیلا ھوا تھا- آئے روز کی متعدی بیماریوں کا موسمیاتی تبدیلیوں اور شخصی قوت مدافعت سے بہت گہرا تعلق ہے- کرونا میں ہمارا کم جانی نقصان ہوا اس کی وجہ herd immunity تھی- پچھلے تین سال سے جس تیزی سے مہنگائی نے اپنی لپیٹ میں لیا ھے ، اس کے اثرات ہر طرف پھیلتے نظر آئیں گے- خوراک،صحت، تعلیم، جرائم اور بہت سے دوسرے مسئلے-
مہنگائی کی زد میں سب سے پہلے کم آمدنی والا طبقہ آتا ہے- پہلا ھدف خوراک ہوتی ہے- مکمل غذا نہ ملنے کے باعث جسم کمزور اور قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے-
مشہور ماہر معاشیات ابھیجیت بنرجی اور ایستھر ڈفلو نے غریبوں کی زندگیوں کی تمام پیچیدگیوں کے بارے میں دو دھائیوں تک تحقیق کی- ان کا ماننا ہے غربت کے بارے میں ناکافی علم نے غربت کے خلاف جنگ کو بہت نقصان پہنچایا ہے- انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہےکہ غریبوں کے لئے ہم ھمدردی اور رحم کے جزبات تو رکھتے ہیں لیکن ان کی زندگیوں کو سمجھنے کے لئے ہمارے پاس نہ وقت ہے نہ ہماری ترجیح – انہیں ہم اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ ان کو سمجھنا ہماری ترجیحات میں ہی نہیں ہے-ہمارا خیال ہے ان کے معاشی وجود کے بارے میں کوئی دلچسپ بات نہیں ہے۔ ہر وقت مہنگائی مہنگائی کرتے ہیں لیکن ہمارے پاس زیرو علم ہے کہ غریب آدمی زندگی گزارتا کیسے-
بدقسمتی سے، یہ غلط فہمی عالمی غربت کے خلاف جنگ کو بری طرح نقصان پہنچاتی ہے-
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ضرورت اس بات کی ہےکہ غریبوں کو کارٹون کرداروں تک محدود کرنا بند کیا جائے اور ان کی زندگی کو ان کی تمام تر پیچیدگیوں کوسمجھنے کے لیے وقت نکالا جائے۔ غربت ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جو سینکڑوں دوسرے مسائل کو جنم دیتا ہے- عالمی بینک کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 682 ملین افراد انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔پاکستان میں غربت کی بہت تیزی سے اوپر جا رہی ہے-
بینرجی اپنی کتاب ” poor economics” میں لکھتے ہیں کہ غریب کس طرح کھانا کھاتے ہیں یہ دلچسپ امر ہے۔ غریبوں کی زندگیوں پر مرتب کردہ 18 ممالک کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے دیکھا کہ خوراک دیہی علاقوں میں انتہائی غریب رہنے والوں کی کھپت کا 36-70٪ جبکہ شہروں میں یہ شرح 53-74٪ ہے۔ غریب مائیکرو نیوٹرینٹس کے مقابلے میں “چسکولے پن ” پر خرچ کرتے ہیں ۔
ترقی پذیر ممالک میں غذائیت ایک مسئلہ ہے۔ وہ چیزیں جو زندگی کو کم بورنگ بناتی ہیں غریبوں کے لیے ترجیح ہوتی ہیں – موبائل، ٹی وی سیٹ، کھانے کے لیے کوئی خاص مزیدار ڈش ۔ شمالی ہندوستان کی ریاست راجستھان کے ایک مقام پر، جہاں تقریباً کسی کے پاس ٹی وی نہیں تھا، انھوں نے دیکھا کہ انتہائی غریب لوگ اپنے بجٹ کا 14 فیصد تہواروں پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، نکاراگوا میں، جہاں دیہاتوں میں 56% غریب گھرانوں کے پاس ریڈیو تھا اور 21% کے پاس ٹی وی تھا، بہت کم گھرانوں کو تہواروں پر کچھ خرچ کرتے دیکھا-
یعنی اگر انٹرٹینمنٹ مہیا ھو جائے تو تہواروں پر خرچ نہیں کریں گے-
حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کو خوراک کی پالیسی پر مکمل طور پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے- کیونکہ بنیادی مسئلہ کیلوریز نہیں تھا، بلکہ دیگر غذائی اجزاء تھے۔
شاید صرف غریبوں کو زیادہ رقم فراہم کرنا ہی کافی نہیں ہے، اور بھی بہت کچھ کرنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے ہندوستان میں دیکھا، جب ان کی آمدنی بڑھ جاتی ہے تو غریب زیادہ غذا نہیں کھاتے۔ اور دوسری خواھشات اور غیر ضروری چیزیں خرید کر محرومیوں کو کم کرنے کی کوشش کریں گے-
غربت کو ختم کرنے کے لیے کوئی جادوئی گولیاں نہیں ہیں۔بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہیں- یہ کتاب غربت کے خاتمے کے لئے مفید نسخہ ہے- بہت چھوٹی چھوٹی معلومات سے غریب کی زندگیوں کو آسان بنایا جا سکتا ہے- غربت کا شکار گھرانوں کو مدد کے ساتھ ساتھ خوراک اور صفائی کی ترجیحات بتائیں- پانی ابال کے پینے کی ترغیب دیں- کم چینی استعمال کرنے کا کہیں – بچے دو ہی اچھے- بچوں کی شادی تب تک نہ کریں جب تک بچہ بر سرروزگار نہ ہو جائے- بچوں کو اگر تعلیم ممکن نہیں تو ہنر مند بنائیں تاکہ خاندان کا سہارا بنے- آجکل کمپوٹر ہر کوئی سیکھ سکتا ھے –
غربت کے خلاف لڑنے کے لئے ہمیں غریب کی زندگی کے بارے میں معلومات اور طرز زندگی کو سمجھنا ہو گا- لنگر کھول دینا نیکی ہے لیکن اس سے آگے کچھ کرنے کی ضرورت ہے-
۰-۰-۰-۰
عتیق الرحمان
Help for this article was sought from Book ” Poor Economics”
#poverty #economy