نظام تعلیم
۶۰ اور ۷۰ کی دھائیوں میں پیدا ہونے والوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ اس تعلیمی نظام سے مستفید ہوئے جو نسل درنسل گیس پیپرز اور گائیڈ بک کی شکل میں ہم تک میتقل ہوا تھا۔ یہ نظام تعلیم صرف فقروں کو یاد کرنے تک محدود تھا اور آج بھی ہے۔ حتی کہ اس میں الفاظ کے معنی اور مفہوم سمجنے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ تحریک یا تحقیق تو بہت دور کی بات ہے۔ انگریز نے دو سو سال برصغیر پاک و ہند پر حکومت کی اور تعلیم کو عام آدمی کی پہنچ سے بڑی خوبصورتی سے نکال کر انگلینڈ لے گیا۔ لہذا جس نے پڑھنا ہوتا تھا وہ انگلینڈ چلا جاتا ہے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں ہمارا تعلیمی نظام اور طلباء کو آخری دم تک پتا نہیں چلنے دیتا کہ انہوں نے سیکھا کیا ہے اور مستقبل میں کرنا کیا ہے۔
شعبہ تعلیم کی تباہی ایک واحد مقصد ہے جس میں پوری قوم بمع سیاسی، غیر سیاسی اکابرین اور اساتذہ سب متفق پائے گئے ہیں۔ نیچے سے اوپر یا اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں، یعنی پہلی جماعت سے لیکر پی ایچ ڈی تک ملک کے طول وعرض میں کہیں بھی دیکھ لیں آپ کو ہر طرف تباہی نظر آئے گی۔ آپ کسی حکومت کی کارکردگی، وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری، جائزہ لے لیں، وہ تعلیم کے میدان آپ کی توقعات پر پورا اتریں گے، یعنی تعلیم کے لئے بجٹ دو فیصد۔ تعلیمی معاملات کو بھی سیاسی سمجھ کر حل کیا جاتا ہے۔
قیام پاکستان سے لیکر آج ہم نے پروان چڑھنے والی ہر نسل سے تعلیم کے معاملے میں یکساں رویہ اختیار کیا ہے ۔ جو بچ کر نکل گئے وہ ان کی انفرادی محنت تھی یا اچھی قسمت۔ کیوں کہ پڑھانا کیا ہے اور پڑھانا ہے ، ہمارا تعلینی نظام اس سے نابلد ہے۔ لہذا سوچنا کیا ہے اور کیسے سوچنا ہے، ہمارے طلباء کو بھی اس کا علم نہیں۔ ہم جہاں ہیں اور جیسے ہیں کی بنیاد پر اپنے وطن کو یکساں نقصان پہنچا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مود ٹھہرا رہے ہیں۔
ایچ ای سی ، ٹیکسٹ اور تعلیمی بورڈوں مین باقاعدہ بدعنوانیوں میں ملوث افراد کے حلاف انکوائریاں ہو رہی ہیں اور پرچے کاٹے جا رہے ہیں اور تمام ملوث افراد لگ بھگ یکساں اور آعلی تعلیم یافتہ ہیں۔ تعلیم باقاعدہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرح ایک تجارت بنا دی گئی ہے۔ معاشرے میں ایک بے ہنگم ساشور اور چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ شاہد یہ اسی تعلیمی خلا اور علم سے تشنگی کا احتجاج ہے۔
تحریر: عتیق