پاکستان چین کا حقیقی بھائی اور امریکہ کا رویہ!!!!

امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے جمہوریت پر بلائی جانے والی کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت کو چین نے سراہا ہے۔ اس ورچوئل سمٹ میں ایک سو دس ممالک کو دعوت دی گئی تھی جبکہ ترکی، ہنگری اور چین کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستان نے بھی اس ورچوئل سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یقیناً پاکستان نے اس سمٹ میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ علاقائی دوستوں سے مشاورت کے بعد ہی کیا ہو گا کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد خطے کے حالات میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ پاکستان نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ڈیموکریسی سمٹ کے لیے مدعو کیے جانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس موضوع پر مستقبل میں ’مناسب وقت‘ پر بات کرے گا۔بہرحال پاکستان کی طرف سے یہ فیصلہ علاقائی دوستوں کی کھلی حمایت قرار دیا جا سکتا ہے۔ چین نے سرکاری سطح پر پاکستان کی عدم شرکت کے فیصلے کی تعریف کی۔  چین کی وزارت خارجہ کے محکمہ اطلاعات کے  ترجمان ڑاؤ لیجیان نے کہا کہ پاکستان نے جمہوریت سربراہی اجلاس میں شرکت سے انکار کرکے چین کا حقیقی بھائی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اب پاکستان حقیقی بھائی تو ہے اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ پاکستان نے خطے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اپنا موقف بہت واضح کیا ہے اور پاکستان مے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے فیصلے کیے ہیں۔ یہ فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ چین کی طرف سے اس سمٹ کو خاصا تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکہ اب ایک نئے ایجنڈے پر ہے اور وہ یہ  فیصلہ کرنا چاہتا ہے کہ کون سا ملک جمہوری ہے اور کون سا ملک جمہوری نہیں ہے جب کہ ساری دنیا کے جمہوری ملک مل کر بھی افغانستان کا مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ برسوں تک افغانستان میں آگ اور خون کا کھیل کھیلنے کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو چکے ہیں اور افغانستان میں ایک مرتبہ پھر طالبان کی حکومت ہے۔ امریکہ ایسی کانفرنسوں کے ذریعے درحقیقت اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنے مخالف ممالک کے خلاف راہ ہموار کر رہا ہے تاکہ وقت آنے پر کسی بھی ناپسندیدہ ملک کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ ویسے بھی یہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ امریکہ یا اس کے اتحادی، ساتھی یا ہم خیال جن ممالک کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں ان کا شمار کمزور ممالک میں ہرگز نہیں ہوتا۔ امریکہ صرف اپنی طاقت کا استعمال کر کے لوگوں کا ذہن بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین نے بہرحال اس ورچوئل سمٹ کی ہر جگہ، ہر سطح پر مخالفت کر کے یہ پیغام ضرور دیا ہے کہ جمہوریت صرف وہ نہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادی کہتے ہیں۔

وینزویلا میں چین کے سفیر لی بارونگ لکھتے ہیں  کہ ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کو فروغ دینے کی بجائے یہ منقسم سربراہی اجلاس بین الاقوامی تعلقات کو خراب کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ ایسے اقدامات دشمنی اور تضاد کو ہوا دیتے ہیں۔ ایسی سوچ نئی تقسیم کا باعث ہے۔ سمٹ فار ڈیمو کریسی کا یہ اجتماع بذات خود جمہو ریت مخالف عمل ہے۔

دوسری طرف امریکہ کے اہم لوگ پاکستان کے دورے پر ھی ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز اینڈ انٹیلی جنس کمیٹی کے وفد نے ملاقات کی ہے۔ا?ئی ایس پی ا?ر کے مطابق ملاقات میں امریکی وفد کی قیادت سینیٹرانگس کنگ نے کی جبکہ امریکی ناظم الاموربھی وفد کے ساتھ تھیں۔ ملاقات میں باہمی دلچپسی کے امور، افغانستان کی سکیورٹی صورت حال پرتبادلہ خیال کیا گیا جبکہ پاکستان اورامریکا کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون پر بھی گفتگو ہوئی۔ ا?رمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کہتے ہیں کہ پاکستان علاقائی ممالک کے ساتھ مثبت دوطرفہ رابطے برقرار رکھنے، پرامن اور پائیدار تعلقات کا خواہاں ہے۔ انسانی بحران سے بچنے کیلئے افغانستان پر عالمی توجہ کی فوری اور افغان عوام کی معاشی ترقی کیلیے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی سینیٹرز نے افغان صورتحال اور بارڈر منیجمنٹ کی خصوصی کوششوں پر پاکستان کے کردار کو سراہا۔

امریکہ افغانستان سے تو نکل گیا ہے لیکن پاکستان میں اس کی دلچسپی ابھی تک برقرار ہے۔ باوجود اس کے کہ امریکہ اس وقت ہر حوالے سے بھارت کی حمایت کر رہا ہوں۔ بھارت امریکی حمایت کی وجہ سے کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں۔ وہاں بچوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں، بچوں، خواتین اور بزرگوں سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں ہے لیکن امریکہ کو بھارت کی اس جمہوریت کے نیچے ہونے والا یہ ظلم نظر نہیں آتا۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ بھی طویل المدتی تعلقات کا خواہشمند ہے لیکن امریکہ یہ بھی بتائے کہ پاکستان کب تک اس کی جنگ لڑتا رہے اور اپنے مفادات کو نظر انداز کرتا رہے۔ آخر کبھی تو یہ راستہ روکنا تھا۔ امریکہ دنیا کی جمہوریت کی فکر چھوڑے اور اپنے لاڈلوں کی جمہوریت سے ہونے والی تباہی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اپنا کم نقصان نہیں کیا۔ ہم حالت جنگ میں رہے اور بعد میں ہمیں دہشت گرد بھی سمجھا گیا یہ تحفے امریکہ نے ہی دیے تھے۔ کیا پاکستان دوبارہ کسی ایسی مشق کا متحمل ہو سکتا ہے یقیناً نہیں۔

Visited 2 times, 1 visit(s) today

You might be interested in