کرونا سے پردہ کیجئے

کرونا کی عمر اب تقریبا دو سال لے لگ بھگ ہے۔ اب تھوڑا نقش ونگار واضح ھوئے ہیں۔مو صوف کی پیدائش پر ھی الزامات لگنا شروع ہو گئے تھے کہ اس کی شہریت کیا ہے۔ اس کے بعد نام مسئلہ بن گیا تھا کہ نومولود کا نام کیا رکھیں۔ کرونانام پر اتفاق ھوا کہ پرکشش اور با رعب سا ھے۔ حلانکہ نومولود کا سلسہ نسب SARS جیسے اعلی نسل وائرسوں سے جا ملتا ھے۔ کرونا کے آباؤ اجداد چمگادڑوں کے ہمنشین تھے اور وہیں سے اپنا دال دلیہ چلاتے تھے۔ کرونا کی جائے پیدائش کا مسئلہ تو آج تک حل نہیں ہوا، البتہ کرونا نے دنیا کی 7 ارب کی آبادی کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ البتہ سیاسی ڈانچے آج بھی کرونا کے پر خطر حملوں سے محفوظ ہیں ۔ غصے میں بپھرے کرونا نے سب سے پہلے اپنے آپ کو سب سے ترقی یافتہ جمہوریت کہلانے والے امریکہ سے دو دو ہاتھ کئے اور پھر یورپ کا ٹکٹ لیا اور وہیں جا بیٹھا۔ کیونکہ شاہی خاندان کی کوئی بھی خبر روشنی کا منہ نہیں دیکھ پاتی تو شنید یہی ہے ملکہ کو بیوہ کرنے میں بھی شاید کرونا نے ہی کردار ادا کیا ھو۔ ٹرمپ، بورس جانسن، مودی سب پر کرونا نے ایسے وار کئے جیسے وہ گروہی تعصب کو اپنے ملکوں میں ہوا دے رھے تھے۔ یورپ میں کرونا نے لا شوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ روئے زمین پر شاید ہی کوئی خطہ ہو جو کرونا کی تباہ کاریوں سے بچا ہو۔
تحقیق سے یہ بات واضح ھوئی ہے کہ کرونا کو انسانی بے اعتنائی اور لاپرواہی بالکل پسند نہیں اور وہ یہ قطعا پسند نہیں کرتا کہ کوئی منہ ڈھانپے بغیر اس کے سامنے آئے۔ انسانوں کے اکٹھ پر حملہ کرنا اس کا مشغلہ ھے۔
پہلے چند ماہ تو کرونا انسانی تجسس سے خوب کھیلا۔ یہ کیا ہے، کون ہے، اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ کسی کو کچھ سمجھ نہ آ سکی۔صرف یہ سمجھ آ سکی کہ دفعہ 44 کی طرح کرونا تین سے زائد افراد کو اکٹھا نہیں دیکھ سکتا اور بغیر منہ ڈھانپے افراد تو کرونا کو زہر لگتے ہیں۔
ستمبر 2020 تک تھوڑی بہت کوشش کر کے دنیا نے کچھ دیر کے لئےکرونا باندھ تو لیا ، لیکن 2021 کے شروع میں ہی میں کرونا رسی تڑواکر پھر بھاگ لیا۔حملہ اب کی بار دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر ہوا اور آخری اطلاع آنے تک جاری ہے۔ کرونا فلی حال انسانی سمجھ سے باہر ہے ۔ کرونا اکیلے اور منہ ڈھانپے شخص کو کچھ نہیں کہتا البتہ دو سے زائد افراد اور وہ بھی بغیر منہ ڈھانپے اس کی ضد ہیں۔ کرونا فی الحال کچھ وقت لے گا۔ گو کہ ویکسین آ چکی ہے لیکن فی الحال 100 فیصد یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اگر آپ اس جن سے بچنا چاھتےہیں تو منہ کو ڈھانپ کر چپکے سے نکل لیں ورنہ آپ کی خیر نہیں-
تحریر ؛ عتیق الرحمان

Visited 2 times, 1 visit(s) today

You might be interested in