کیا افغانستان کوپھر سے عالمی جنگ کا اکھاڑہ بنایا جارہا ہے؟
28 جنوری 2022 ء کو افغان نیوز ایجنسی ٹولو کی اس خبر نے دل کو بے چین اور افسردہ کردیا کہ افغانستان کے لوگوں نے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اپنے گردے بیچنا شروع کردیے ہیں۔ ان مجبور اور لاچارافراد میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں جنہیں اپنے جسم کے اعضاء بیچنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان کے عوام کئی دہائیوں سے ابتری کا شکار ہیں۔ تاہم پھر بھی وہاں کی صورتحال اتنی خراب نہیں تھی جتنی آج کل ہے۔ آج وہ خوراک، پانی اور ادویات سمیت بہت سی بنیادی ضرورتوں کی شدید کمی کا شکار ہیں۔افغانستان کے حالیہ بدترین انسانی بحران کی بنیادی وجہ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ [آئی ایم ایف] کی پابندیاں اور امریکہ کی طرف سے 9.5 بلین ڈالرز افغان اثاثوں کو منجمد کرنا ہے۔اس صورتحال میں افغانستان میں بیروزگاری، غربت اور بھوک کی سطح خوفناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ جس میں وہاں کے لاچار لوگوں کے پاس صرف دو راستے ہی بچے ہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک چلے جائیں یا پھر افغانستان میں ہی رک کر بھوک پیاس سے مرنے کا انتظار کریں۔تاہم ان حالات میں اگر امریکی ریزرو بینک 7 بلین ڈالر جاری کر دے تو افغانستان میں کسی بڑے انسانی بحران سے بچا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کو قابو میں رکھنے کے لیے جنوبی ایشیاء کو بحرانی کیفیت سے دوچار رکھنا امریکہ کی اسٹریٹجک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جس میں اسے بھارت کی مدد حاصل ہے جو اسی تناظر میں امریکی مفادات اور مقاصد کی خاطر خطے کو عدم استحکام سے دوچار کررہا ہے۔ اس طرح افغانستان کے 23 ملین ڈالر جو افغانستان کے عوام کی ملکیت ہیں، انہیں منجمد کرکے خطے میں ایک نئی عالمی گیم کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جو بھی ملک امریکی مفادات سے ٹکراتا ہے، افغانستان کی طرح اس کے اثاثے منجمد کردیے جاتے ہیں یا پھر ایران کی طرح اس پر پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کو کسی بھی ملک پر حملہ کرنے کی بھی کھلی چھٹی حاصل ہے جیسا کہ اس نے عراق، لیبیا، شام اور افغانستان میں کیا۔افغانستان کی بدقسمتی دیکھیے کہ اس کی جیواسٹریٹجک پوزیشن ہی اس کے گلے کا سب سے بڑا پھندا ہے۔ یہ عرصہ دراز سے عالمی قوتوں کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے اور وہ اب بھی کسی نہ کسی طرح اس پر اپنی بالادستی جمائے رکھنا چاہتی ہیں۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ افغانستان کی موجودہ صورتحال کو اس حد تک بگاڑ دے کہ وہاں کے عوام اپنی ہی حکومت کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور بالآخر ہمسایہ ممالک پاکستان اور افغانستان جانے پر مجبور ہو جائیں۔ امریکہ افغان حکومت کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ وہاں سرگرم دہشت گرد گروپوں پر اپنا اثرورسوخ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے دہشت گرد طالبان حکومت کے خلاف اپنی صفیں سیدھی کررہے ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے بھی فکرمندی کا باعث ہے کیونکہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے اس کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔
امریکہ اور بھارت ظاہری اور خفیہ تمام حربوں کے ذریعے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ افغان طالبان شمالی اتحاد اور ان کے دوسرے کٹھ پتلیوں کو اپنی عبوری حکومت میں شامل کرلیں۔اس سیاسی حربے کو “مشترکہ حکومت” کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت امریکہ طالبان پر براہ راست دبائو ڈالنے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ طور پرجی 20 ممالک، بھارت اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے اثرورسوخ کو بھی استعمال کررہا ہے۔ اسی پس منظر میں 24 جنوری کو اوسلو میں جی 20 ممالک نے اسلامی امارات کے نمائندوں اور سول سوسائٹی سے ملاقات کی۔ جس میں انہوں نے افغانستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے پرامن مستقبل کے لیے مشترکہ حکومت کے قیام پر زور دیا۔ ملاقات کے شرکائٗ نے افغانستان کے لیے فوری مدد پر بھی زوردیا تاہم جاری بیان میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ وہ افغان حکومت کی توثیق نہیں کرتے۔
اسی طرح بھارت وسطی ایشیائی ریاستوں کے ذریعے اپنی چال چل رہا ہے۔ 29 جنوری کو مودی نے 5CARs کے سربراہوں سے ورچوئل ملاقات کرتے ہوئے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ بھارت نے افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کے فوری بعد بھی وسطی ایشیائی ریاستوں سے مذاکرات کیے تھے۔ اس کی وجہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ وہ خود کو خطے کا چوہدری ثابت کرنے اور پاکستان اور چین کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ چاہتا ہے۔ اسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف سیاسی تجزیہ نگار سید باقر محسنی نے ٹولو نیوز ایجنسی کو بتایا کہ پاکستان سے سخت مقابلے اور اس کے افغانستان سے تاریخی روابط کے پیش نظر بھارت افغانستان کی موجودہ صورتحال کو اپنے لیے موزوں خیال نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ وہ افغان حکومت میں اپنے نمائندوں کی شمولیت کے لیے سر توڑ کوشش کررہا ہے۔شمالی اتحاد کو تاجکستان کے ذریعے بھارت کی مدد و اعانت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آئی ایس کے کی بھی حمایت حاصل ہے۔ (جاری)