سائبر کرائم

مزمل انعام
سائبر کرائم کو دراصل کمپیوٹر کرائم بھی کہا جاتا ہے۔ جس میں شکار ہونے والا بھی کمپیوٹرہے اور شکار کرنے والا بھی کمپیوٹر ہے۔ آج دنیا میں سائبر کرائم تیزی سے بڑھ رھا ہے۔ جس سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ سائبر کرائم کی کئی اقسامُ ہے جن میں ہیکنگ ،آئن لائن فراڈ سہرفرست ہے۔ ہیکنگ کے زریعے ویب سائٹ سے قیمتی معلومات چرائی جاتی ہے جبکہ آئن لائن فراڈ کا تعلق پیسوں کی منتقلی سے ہے۔1971میں جون جی ڈرپیر پھلا شغشص تھا جس نے سب سے پھلے ہیگنگ کو استعمال کیا۔2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف پاکستان میں تقریباً 2000افراد کو سائبر کرائم سے واسطہ پڑا جبکہ 2010 میں یہ تعداد صرف 287 تھی۔ آج کی دنیا امیزون اور علی بابا جیسی بڑی کمپنیوں کے گرد گھمتی ہے تاہم سائبر کرائم کا زیادہ تر شکار بھی یہی کمپنیوں کے استعمال شدگان ھی ہوتے ہیں ۔ آج پوری دنیا میں ایک رحجان عام ہے اور وہ ہے گھر بیٹھے آئن لائن چیزیں منگوانا تاھم اس میں بھی یہ چیز دیکھی گئ ہے کئ اکپر اوقات پروڈکٹ کی کوالٹی میں کافی فرق نکل آتا ہے۔ ای کامرس اس وقت دنیا میں لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے وھی ای کامرس بزنس کے زریعے ہزاروں لوگ فراڈ کا شکار ہو رہے ہیں ۔۲۰۲۱ میں امریکی حکومت نے سائبر کرائم سے بچنے کے لے ۵ ارب ڈالر کا بجٹ محنتص کیا تھا تاہم ایف۔بی۔آر کی ایک رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں سایبر کرائم کے زریعے 8ارب ڈالر کے فراڈ کے واقعات ہوئے۔

Visited 1 times, 1 visit(s) today

You might be interested in