روس ، یوکرین جنگ میں شدت آگئی ، اہم شہر لسچانسک پرروسی فوج کے کنٹرول کا دعویٰ
کیف(نیوزڈیسک)یوکرین کا مشرقی شہر لسچانسک اس وقت متضاد دعوؤں کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ روس اور یوکرین دونوں کی افواج کا دعویٰ ہے کہ یہ شہر ان کے کنٹرول میں ہے۔یوکرین کا کہنا ہے کہ اس کی فوجیں روس کی طرف سے شدید شیلنگ کا سامنا کر رہی ہیں تاہم اس کا اصرار ہے کہ روس نے اس شہر پر قبضہ نہیں کیا۔دوسری جانب روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ کامیابی سے شہر میں داخل ہو کر اس کے مرکز تک پہنچ چکے ہیں۔روسی میڈیا کی جانب سے علیحدگی پسندوں کی ویڈیوز دکھائی جا رہی ہیں جو بظاہر شہر کی گلیوں میں مارچ کر رہے ہیں۔روسی ذرائع کی جانب سے بھی ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ٹوئیٹ کی گئی ہیں جن میں مبینہ طور پر روسی جھنڈا شہر کے تباہ شدہ انتظامی مرکز میں لگایا جا رہا ہے۔ تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔یوکرین کے انڈسٹریل ڈنباس کے لوہانسک خطے میں یہ وہ آخری شہر ہے جو اب تک اس کے کنٹرول میں ہے اور اس کا چھن جانا روس کے لیے ایک اور اہم کامیابی تصور ہو گی۔ روس نے گذشتہ مہینے اس کے نواحی شہر سیوردونیتسک پر قبضہ کیا تھا۔لوہانسک کے گورنرسرہئی ہائیڈا نے کہا ہے کہ لسچانسک پر حملہ ہو رہا ہے اور روسی فوجیں محصور شہر میں چاروں جانب سے پہنچ رہی ہیں۔روس میں یوکرین سے عیحدگی کی حامی لوہانسک پیپلز ریپبلک کے سفیر روڈیون میروشنک نے روسی ٹی وی کو بتایا کہ لسچانسک کنٹرول میں ہے تاہم ابھی آزاد نہیں ہوا۔دفاعی امور کے بلاگر روب لی نے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز شیئر کیں جن میں چیچن روسی فوجیوں کو یوکرین کے شہر میں دیکھا جا سکتا ہے۔لسچانسک کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس خطے کے جغرافیے اور جنگ میں اس کے کردار کو سمجھنا ہو گا۔یہ شہر سیویرسکی دونیتس دریا کے ساتھ موجود ہے جو ڈنباس خطے سے گزرتا ہے اور اب تک یہاں روس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔تقریباً ایک ماہ قبل اس دریا کو پار کرنے کی کوشش کے دوران روسی فوج کا ایک پورا بٹالین گروپ اس وقت تباہ ہو گیا تھا جب یوکرین کے توپ خانے نے سینکڑوں فوجیوں اور درجنوں بکتر بند گاڑیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔جب سے روس نے یوکرین پر چڑھائی کی ہے تب سے ہزاروں شہری اور فوجی ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں جبکہ کم ازکم 12 لاکھ لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔اس صورتحال کے جواب میں مغربی ریاستیں یوکرین کو مسلح کر رہی ہیں اور روس، جو کہ جوہری سپر پاور اور عالمی سطح پر توانائی سپلائی کرنے والا ملک ہے، پر غیر معمولی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔شمالی خارخیو میں بھی جنگ میں شدت آئی ہے جہاں ریلوے ٹریکس اور بجلی کی لائنز پے درپے حملوں میں تباہ ہو گئی ہیں۔ ابھی تک کسی ہلاکت یا کسی شہری کے زخمی ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔متعدد دھماکوں کے نتیجے میں ساحلی شہر اوڈیسہ کی جانب جانے والے راستے پر موجود شہر مائکولیف بھی لرز اٹھا۔روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اس کی فضائیہ نے یوکرین کی پانچ کمانڈ پوسٹس اور ایمونیشن کے متعدد ذخیروں کو تباہ کر دیا ہے تاہم روسی دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔روس پر الزام ہے کہ اس نے ان دھماکوں سے ایک روز پہلے ہی اوڈیسہ کے قریب فلیٹوں پر میزائل حملے کیے جس سے 20 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔سنیچر کو بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو نے کہا کہ ان کے ملک کی فضائیہ نے یوکرین کا میزائل مار گرایا ہے۔تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یوکرین کا میزائل کس جگہ پر گرایا گیا ہے۔خیال رہے کہ بیلاروس کے صدر روسی ہم منصب کے قریبی ساتھی ہیں اور انھوں نے روسی فوجی دستوں کو اجازت دی تھی کہ وہ بیلاروس سے یوکرین پر حملہ کریں۔بیلاروس کے صدر نے کہا کہ ’وہ ہمیں اکسا رہے ہیں۔۔۔ تین دن پہلے یا اس سے کچھ زیادہ، یوکرین کی سرزمین سے بیلاروس کی حدود میں فوجی تنصیبات پر حملے کی کوشش کی گئی تھی۔‘’مگر خدا کا شکر ہے، میزائل شکن سسٹم پینٹسر تمام میزائلوں کو روکنے میں کامیاب ہو گیا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم یوکرین میں جنگ نہیں کرنا چاہتے۔‘