اقتدار کی سیاست


ایک انتہائی اھم اور قابل غور نقطہ، سیاسی دھڑے لبرلز کی ہمدریاں سمیٹنے کے لئے سول سپرامیسی کا نعرہ لگا کر فوج پر تنقید کرتے ہیں لیکن جب عوام سے ووٹ لینے کی باری آئے تو فوج کے ساتھ کھڑا ھونا ضروری سمجھتے ہیں۔ کیونکہ پاکستانی عوام فوج کو قابل بھروسہ اور ہر مشکل کا حل سمجھتے ہیں-
پچھلے چار سال میں کم از کم عوام کی سیاستدانوں کے کھوکھلے نعروں کی سمجھ تو آ ھی گئی ھو گی کہ امپورٹڈ حکومت نامنظور کے نعرے اور ووٹ کی عزت مانگنے والوں کی اصل حالت کیا ہے- تمام بڑی جماعتوں کا مطمعہ نظر فوج کی خوشنودی ہے- جب پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں فوج کا کردار اتنا اہم ھے تو پھر فوج کو بدنام کرنے کی پالیسی کیوں-
یہ دوغلی پالیسی ہماری سیاست کا المیہ ہے ۔ یہ ایک معمہ ھے کہ طاقت کا حصول فوج کے ذریعے اور تنقید بھی فوج پر۔
عمران خان پچھلے سات سال سے فوج کے کندھے پر سوار تھے اب نیچے اترتے ہیں فوج کو نشانے پر رکھ لیا ہے-
جلسوں میں اشتعال انگیز تقریریں اور پس پردہ فوج کی ہمددردیاں حاصل کرنے کے لئے تگ و دو- عمران خان کی دوغلی سیاست کھل کر سامنے آ گری ہے-
عمران خان نے پارلیمانی روایات کی قدر نھی کی اور کوئی نئی روائت بھی لے کر نھی آئے-
نواز شریف اور عمران خان نے جو بویا وہ کاٹ رھے ہیں – ریاست اور عوام کا تحفظ حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے اور حکومتیں اس ذمہ داری کو فوج کے ذریعے نبھاتی ہیں- آپ ذھانت دیکھیں عمران خان نے سب سے پہلے فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کی- اب ریاست ھچکولے کھا رھی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یھی ھے کہ اندھا دھند بیانیے نے سب کچھ تتر بتر کر دیا ھے- اب کسی سیاسی لیڈر کے ھاتھ میں رسی کا سرا نھی آرھا- کوئ جلسوں میں فوج سے حساب مانگتا تھا تو کسی نے عدم استحکام کو سازش کا نام دیا-
پوری قوم ذھنی کشمکش میں مبتلا ھے اور اس کی واحد وجہ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی ذاتی مفادات کی پالیسیوں کے علاوہ کچھ نہیں-

Visited 3 times, 1 visit(s) today

You might be interested in