فن خطابت اور فن لطافت
تحریر:ڈاکٹر عتیق الرحمان
اگر آپ فن خطابت سے نابلد ہیں تو یقین مانیے سیاست آپ کا پیشہ نہی ھو سکتا- فن لطافت بھی شو بزنس کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا سیاست کے لئے خطابت-
چند دن قبل میرا جی کا ایک اخباری بیان نظر سے گزرا کہ “پرستار بہت جلد میری شادی کی خبر سنیں گے -مجھے من چاہا دولہا مل گیا ہے”- میرا جی کے مزاح کا اپنا الگ ہی انداز ہے – انگلش میں مہارت کے بعد اب اردو ادب میں مزاح نگاری کی خدمت کا سوچا ہے- چند ماہ پہلے بھی میرا جی کا ایک بیان نظر سے گزرا تھا ” صبا قمر مجھے سکرین پر نھیں دیکھنا چاہتی”۔ میرا جی کے بیانات انتہائی نپے تلے اور معنی خیز ہوتے ہیں اور قارئین کے دل کر چھو کر گزرتے ہیں – چھوٹے چھوٹے چٹکلے ان کو فلم انڈسٹری میں زندہ رکھے ہوئے ہیں-
سکرین پر اور سیاست میں زندہ رہنے کے لئے چٹکلے اور بیانات ضروری ہیں ورنہ فلم باکس آفس پر ھٹ نھی ہوتی اور بیلٹ باکس بھی خالی رہتا ہے-
برصغیر پاک وہند کا مزاج چٹ پٹہ اور چٹخارے دار ہے- یہاں کھانے میں حلیم ،بریانی، نہاری ،گول گپے، فروٹ چاٹ،پاؤ بھاجی جیسی مصالحے دار ڈشیں ، کڑک چائے اور گفتگو بھی کڑاکے والی پسند کی جاتی ہیں- ہمارے اکثر سیاست سے جڑے افراد فن خطابت سے نا بلد ہیں- پریس کانفرنس میں پاور پوائنٹ پر ڈیٹا دکھا کر اس صحافی کو سمجھا رھے ہوتے ہیں،جو موٹر سائیکل میں تین سو روپے لیٹر پٹرول ڈلوا کر پریس کانفرنس سننے پہنچا ہے- نہ عوام سنتی ہے نہ صحافی- عوام وجوھات نہیں نتیجے پر غور کرتی ہے-
مولانا فضل الرحمان بہت پائے کے مقرر ہیں-بہت نپے تلے انداز میں معنی خیز گفتگو کرتے ہیں اور شاید ہی کبھی بے معنی بات کی ہو- کوئی ابہام نھی رہنے دیتے- الفاظ کا چناؤ اور ادائیگی بہترین ہوتی ہے-
ونسٹن چرچل کے بارے میں مشہور ہے کہ جب مجمع سے خطاب کرتے تو حاظرین پہ سکتہ طاری ہو جاتا- چرچل نے تقریر کا فن بہت محنت سے سیکھا تھا-
پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو بہت پائے کے مقرر تھے- ان کا پر جوش اور عوامی خطابت کا انداز شاید ہی کسی اور سیاسی لیڈر کے حصے میں آیا ہو- ھزاروں کے مجمع کو دم بخود کر دیا کرتے تھے-
کچھ لوگوں کو یہ خدادا صلاحیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ جب بھی، جہاں بھی چاہیں اعتماد سے بول سکتے ہیں – لیکن اگر قدرتی صلاحیت نہ ہو توپر اثر مقرر بننے کیلئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے- وسیع مطالعہ اور شفاف ذھن اس منزل کی کامیابی کی سیڑھی ہے- اگر لیڈر کو علم ہی نھیں کہ وہ اپنی تقریر سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ حاظرین، ناظرین اور سامعین سب کو یکساں حیران کر دے گا-
باراک اوبامہ ، سابقہ امریکی صدر بھی بہت اعلی مقرر تھے۔ ان کے لہجے کا ٹھہراؤ، خطاب کو بہت اثر بنا دیتا تھا-
شیخ رشید بھی عوامی خطابت کا فن خوب جانتے ہیں- ان کے چٹکلے اکثر میڈیا کی ھیڈ لائن بنتے ہیں-
پولیٹیکل کمیو نیکیشن ایک فن ہے اور معاشرے کی تشکیل کا بہت بڑا ذریعہ بھی- کوئی بھی معاشرہ وہی زبان استعمال کرے گا جو اس معاشرے کے سیاسی اکابرین استعمال کرتے ہیں – عوام کی گفتگو کا محرک ان کے سیاسی قائدین کی گفتگو ہوتی ہے- گو کہ انٹر نیٹ کی ترقی نے اطلاعات کو عام کر دیا ہے لیکن سیاسی گفتگو پھر بھی دوسری تمام communications پر سبقت رکھتی ہے-
ہمارے سیاسی اکابرین ،خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوں ،ان کو بامقصد اور پر اثر گفتگو اور سیاسی اجتماع سے خطاب کا فن سیکھنا ہو گا اور اپنے بیانیے کو ریاست کی بہتری کے لئے استعمال میں لانا ہو گا-