گلوبل ڈس آرڈر

دنیا میں isolation میں اب نہ ترقی ھے نہ تباھی- گلوبل ویلیج میں اب سب اکٹھے ہیں –
معاشی عدم استحکام، انفارمیشن ڈس آرڈر ، روس- ایران ، اسرائیل- فلسطین جنگ، عالمی سطح پر طاقت کے حصول کی کشمکش نے دنیا کو گلوبل ڈس آڈر میں مبتلا کر دیا –
تباھی کی انتداء کرونا سے ھوئی، کرونا کی وباء نے دنیا کو تہہ و بالا کر دیا اور اس وباء سے نجات پاتے ہی، دنیا آپس میں دست و گریبان ہو گئی- کرونا کی وجہ سے بہت سی صنعتیں زمین بوس ہو گئیں- انتہاء پسندی اور تعصب نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے-
اسرائیل کی فلسطینوں پر چیرہ دستیوں سے مسلم امہ پریشان ہے- لیکن امہ پچھلی کئی دھائیوں سے آپس میں مذھبی تضادات کی وجہ سےتقسیم ھو چکی ھے- انہیں تضادات کا فائدہ اٹھا کر مغربی قوتوں نے نہ صرف مشرق وسطی کے تیل اور گیس کے ذخائر پر ،ورلڈ آرڈر کی آڑ میں ، اجارہ داری قائم کر رکھی ہے بلکہ پورے خطے کو اپنے تسلط میں کر رکھا ہے- مختلف قومی تنظیمیں محظ اخلاقی لحاظ سے اپنی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لئے بیانات دے رھی ہیں- اس ظلم کی ذمہ دار، کمزور امہ خود ھے- سمجھ نہیں آتی یہ احتجاج کس سے کر رھے ہیں-

پچھلے پندرہ سالوں میں ملک کی تینوں بڑی جماعتیں ، باری باری پاکستان کی حکمران تھیں – پاکستان کی ترقی کی وجہ بھی یہی ہیں مسائل کی وجہ بھی یہیں ہیں کوئی اور نہیں-

دنیا میں روزگار، کھانا پینا ، صاف پانی کی قلت دن بدن بڑھتی جا رھی ھے کیونکہ مارکیٹ اکانومی نے چند لوگوں کو بہت ہی امیر اور بہت بڑے گروہ کو بہت زیادہ غریب کر دیا ھے- دولت کی تقسیم کا یہ فرق ہی تمام مسائل کی بنیادی وجہ ہے- اس فرق کی بڑی وجہ بڑی بڑی کمپنیاں جو کیپیٹلزم کی آڑ میں عالمی سطح پر عوام کا استحصال کر رھی ہیں
انٹر نیٹ نے جھوٹ کی پرورش کی ھے تو جنگوں نے دس کروڑ مہاجرین پیدا کئے ہیں-
ھر طرف پھیلی ابتری کی وجہ عالمی قیادت، بڑی بڑی کمپنیاں ، مذھبی انتہاء پسندی اور قانون کی عدم پاسداری ھے-
عالمی امن میں ابتری، عالمی معاشی عدم استحکام کے ذمہ دار عالمی اور علاقائی طاقتیں ہیں ، اپنی طاقت اور خارجہ پالیسی کے حصول کے لئے ان قوتوں کا ترقی پزیر ممالک کا استحصال اور انتہاء پسند گروھوں کی پشت پناھی ھے-
دنیا کی آٹھ ارب کی آبادی کے لئے وسائل پیدا کرنے کے لئے عالمی، علاقائی طاقتوں اور دوسرے ممالک کو مل بیٹھ کو مسائل کا حل تلاش کرنا چاھیے- ورنہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ صرف وائرس ہی نہیں ، بے روزگاری ، خوراک اور پانی کی کمی اور دوسرے مسائل بھی تیزی سے پھیلتے ہیں اور پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں-

Visited 1 times, 1 visit(s) today

You might be interested in