ڈیٹا سائنس اور گڈ گوورننس
ایک تجزیہ
عالمی نظام کی سب سے بے توقیر چیز کمزور ریاستیں، اور غریب عوام ھے – عالمی نظام میں, NATO, G UNSC, OPEC, WTO تگڑے ممالک کے اتحاد جو ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں-
ول ڈیورنٹ ( will durrant)کی کتاب lessons of history کے پہلے باب میں ہی مصنف نے وضاحت کی ہے کہ دنیا میں وہی بچتا ہے جو لڑنا جانتا ہو ( survival of the fittest)- دنیا میں عزت کمانے کا ایک ہی راستہ ہے، اپنے آپ کو اور ملک کو مضبوط بنایئں –
انسانی تاریخ میں اب تک کاسب سے اعلی نظریہ جمہوری طرز حکومت اور اب تک کی سب سے مفید ایجاد پنسلین- اور تباہی کا بہترین نسخہ آپس میں فساد اور لڑائی ہے –
عالمی نظام سے لیکر، ریاستوں، شہروں، گروپوں ، نیز ھر جگہ
might is right کا قانون آج بھی اتنا ہی قابل عمل ہے جتنا یہ انقلاب فرانس سے پہلے تھا- آپ پچھلے پچیس سالہ عالمی سیاست پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ بڑی طاقتیں، قدرتی ذخائر جیسا کہ تیل ، معدنیات، تانبا، یورینیم، سمندری حیات، ھیرے ، سونا، نمک، پر قبضے کے لئے ہمہ وقت جدوجہد کر رہی ہیں- عالمی سیاست میں بلاک بن اور ٹوٹ رھے ہیں –
غربت مٹانے کے لئے دنیا آج بھی اسی جگہ کھڑی ہے جہاں اٹھارویں صدی میں پہلے صنعتی انقلاب کے وقت کھڑی تھی- ۱۷۶۵ میں کوئلےاور انجن کی ایجاد نے صنعتی انقلاب کی داغ بیل ڈالی – صنعتی ترقی نے انقلاب فرانس کی بنیاد رکھی اور ریاست کا عوام سے رشتہ یکسر تبدیل ھو گیا- موروثی حکمرانی اور جاگیر دار طبقے کا تسلط ختم ھوا – صنعت کاروں نے جاگیرداروں کی جگہ سنبھالی، کھیتوں باڑی کرنے والے شہروں میں جا بسے اور فیکٹریوں میں کام کرنے لگے- غلام وہی رہے ، غلامی کا طریقہ اور مالک تبدیل ہو گئے- دیہاتوں سے شہروں کو کی گئی ہجرت نے زندگیوں کو اجیرن کر دیا –
بیسویں صدی میں ایک بار پھر شہریوں کا ریاست سے رشتہ تبدیل ہوا جب دنیا میں سلطنتوں اور کالونیوں کا خاتمہ ہوا – بہت سی نئی ریاستیں وجود میں آئیں – جنگ عظم دوئم کے بعد دنیا میں ایک نیا ورلڈ آرڈر معرض وجود میں آیا- پاکستان اسی دور میں آزاد ہوا جب شہری کا ریاست سے نیا نیا رشتہ استوار ہو رھا تھا- اس رشتے کو استوار کرنے کے کوئی مروجہ طریقے رائج نہیں تھے – عالمی سیاست میں دو بلاک تھے، روس اور امریکہ – پاکستان نئی ریاست تھی ، قیادت کا بحران تھا، فوج کی سیاست میں مداخلت سے ، مضبوط جمہوریت کی بنیاد نہ رکھی جا سکی- ہم شہری کا ریاست سے رشتہ ابھی ٹٹول ہی رھے تھے کہ مشرقی پاکستان دو لخت ہو گیا- آزادی کے چوبیس سال بعد آئین تشکیل دیا گیا- یہ وہ وقت تھا جب بائیس خاندانوں کی سیاست پر اجارہ داری والی تھی- ۱۹۷۱ کے بعد بھی دو فوجی ادوار آئے اور جمہوریت ہچکولے کھاتی رھی- پھر اچانک امریکہ اکیلی طاقت رہ گیا اور دھشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن کر ابھری- دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑنے کے لئے پاکستان دنیا کی واحد سپر پاور کا اتحادی تھا- یہ ایک انتہائی مشکل سٹڑیٹجک اشتراک تھا- اس جنگ نے معاشرتی، معاشی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں- یہ حساب کا کلیہ نہیں جس کا حل حتمی شکل میں نکل آتا ہے- عالمی اور قومی سیاست کا الجھا ہوا گٹھ بندھن ہے- تہہ در تہہ معاملات الجھے ہوئے ہیں جن کو انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے مزید الجھا دیا ھے-
انٹر نیٹ کی تیز ترین ترقی نے تیسری بار شہری کا ریاست سے رشتہ تبدیل کر دیا ہے- اب کے عوام کا ریاست سے رشتہ یک سر مختلف ہے – تاریخ میں پہلی بار عام آدمی کو طاقت ملی ہے -اب عام آدمی کے ہاتھ میں انٹر نیٹ اور موبائل ہے – عام آدمی ریاست سے علیحدہ ہو کر عالمی نظام سے بھی منسلق ہے اور اپنا حصہ انٹر نیٹ سے کما رہا ھے اور برملا رائے کا اظہار بھی کر رھا ہے- شہریوں کی عالمی نظام سے وابستگی ریاست کی رٹ کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے-
یہی وجہ ہے کہ ریاستی ادارے اور روائتی میڈیا ان پیچیدگیوں کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں اور یہ تبدیلی ابھی جاری ہے-ایک اور پیچیدگی یہ ہے کہ دنیا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نرغے میں ہے لیکن جمہوریت بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے- ملٹی نیشنل کمپنیاں ریاستی امور میں بالواسطہ بہت بڑی stake holders ہیں لیکن کمپنیوں کے پیش نظر صرف ان کا نفع ہے، نہ کہ ریاستو ں کا مفاد-
حکمرانی کے لے گھمبیر مسائل کا حل روائیتی اور پرانے طریقوں میں نہیں ملے گا –
حکمرانوں کو عالمی نظام سے منسلق اپنے شہریوں کے تعلق ، معاشرتی نظام کی پیچیدگیوں، اربن ڈویلپمنٹ، انٹر نیٹ کے استعمال ، ریاست اور عوام کے نئے رشتے اور ریاستوں کے آپس میں تیزی سے تبدیل ہوتے تعلق کو سمجھنا ہو گا-
Governance اب monolith معاملہ نہیں – یہ ایک سائنس بن چکی ہے – اسے سمجھے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں
۰-۰-۰-۰-
ڈاکٹر عتیق الرحمان