ورچئل ورلڈ اور حقیقی زندگی
سوشل میڈیا کی دنیا کے اپنے رنگ ہیں -ایک ہی خبر، واقع یا عمل کی مختلف توجیحات چل رہی ہوتی ہیں – interpret کرنے والے اپنے مخصوص جھکاؤ کے مطابق اس خبر کو وصول کرتے ہیں – عموما کسی واقع، عمل یا مسئلے کے بارے میں بحث کرتے ہوئے ہم قانونی ، اخلاقی، سیاسی، تاریخی یا شرعی جواز دے کر دنگل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں- دوسری طرف کے پہلوانوں کے پاس بھی چت کرنے کے لئے یہی داؤ ہوتے ہیں -اگر ایک پارٹی قانونی حوالہ دے رہی ہو تو دوسری تاریخی حوالے کی طرف چل پڑے گی -اگر ادھر بات نہ بنے تو اخلاقی دباؤ کا حوالہ آئے گا – ہم ایک فیصد بھی مخالفت میں بولی گئی دلیل کو برداشت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے- اصل بحث پیچھے رہ جاتی ہے- چن چن کر کوسے دیتے ہیں ،لکھتے ہیں، میمز بناتے ہیں – گنگر گورمین، ایک آسٹریلین صحافی اور مصنف ، اپنی کتاب ” Troll Hunting” میں لکھتی ہیں کہ ٹرالنگ کرنے والے دوسروں پر نقطہ چینی کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں- ٹرال گروپس بنے ہوتے ہیں جو سوچ بچار کر کے مخالف پر حملے کرتے ہیں- یہ حملے انفرادی اور گروھی دونوں صورتوں میں ہوتے ہیں- مخالف جتنا چیخے چلائے گا، ٹرالز کو اتنی ہی زیادہ خوشی محسوس ھو گی- سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بحث و مباحثے میں لاجواب ہو کر ذاتی حملے، پھر گالم گلوچ، پھر وٹس ایپ گروپ سے اخراج پر بات چلی جاتی ہے – آج کل ہر وٹس ایپ گروپ میں دو سب گروپ ہیں ، دونوں صبح روٹین سے لڑنا شروع کرتے ہیں اور رات گئے تک یہی کام ہے- ٹویٹ پڑھے بغیر اوپر نام دیکھ کر آپ بتا سکتے ہیں کہ اس نے کیا لکھا ہو گا-حقیقی زندگی میں دونوں فریقین کو سمجھ نہیں آ رھی کہ پہلے پٹرول مہنگا ہونے کا ماتم کرنا ہے یا بجلی کے بلوں کا- ڈالر تو خیر درمیان میں سفر کر ہی رھا ہے- حکومت بجلی کی قیمت کہاں سے پوری کرے، گردشی قرضے کیسے دے، ایک سو چوبیس ارب ڈالر کے بیرونے قرضے علیحدہ پھن پھیلائے کھڑے ہیں – ساٹھ فیصد آبادی تیس سال کی عمر سے نیچے ہے اور بے روزگاری عروج ہر ہے- متوسط طبقہ تقریبا معدوم ہو چکا ھے-